حدیث غدیر مولا علی ؑ کی خلافت پر واضح دلیل ۔۔۔۔!

حدثنا إبراهيم بن مرزوق قال ،حدثنا أبو عامر العقدي، قال حدثنا كثير بن يزيد، عن محمد ابن عمر بن علي، عن أبيه عن علي كرم الله وجهه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم حضر الشجرة نجم فخرج آخذا بيد علي فقال: ” يا أيها الناس ” ألستم تشهدن أن الله عز وجل ربكم؟ ” قالوا: بلى قال: ” ألستم تشهدون أن الله ورسوله أولى بكم من أنفسكم، وأن الله ورسوله مولاكم؟ قالوا بلى قال: “فمن كان الله و رسوله مولاه فعلي مولاه ” إني قد تركت فيكم ما أخذتم لن تضلوا بعدي، كتاب الله بأيديكم وأهل بيتي “….
مولا علی ؑ سے روایت ہے بے شک نبیﷺ مقام خم میں ایک درخت کے پاس آئے پھر آپﷺعلی کا ہاتھ پکڑ کر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا اے لوگوں کیا تم گواہی دیتے ہو کہ الله تبارك و تعالي تمھارا رب ہے؟ لوگوں نے کہا جی ہاں گواہی دیتے ہیں ..
پھر آپ نے فرمایا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو الله ﷻ اور اس کا رسولﷺتمھاری اپنی جانوں پر تم سے زیادہ حق تصرف رکھتے ہیں اور تم الله ﷻاور رسولﷺکو اپنا مولا سمجھتے ہو لوگوں نے کہا جی ہاں…
آپ ﷺ نے فرمایا کہ پس جس کا اللهﷻ اور اسکا رسول.ﷺ مولا ہے تو علی ؑ بھی اس کے مولا ہے اور تمھارے درمیان وہ چیز چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم نے اسے پکڑا تو کبھی گمراہ نہیں ہونگے الله کی کتاب جو تمھارے ہاتھوں میں ہے اور میرے اہل بیت ؑ…..
(1)ابن حجر = اس کی سند صحیح ہے
(2)البصیری > اس کی سند صحیح ہے
(3)شعیب الارناووط> اس کی سند حسن ہے
( 4)شیخ زبیر علی زئی > اس کی سند حسن لذاتہ ہے
پیغمبر ﷺنے ” من کنت مولاہ “ کہنے سےپہلے یہ سوال کیا کہ ”الست اولیٰ بکم من انفسکم؟“ کیا میں تمھارے نفسوں پرتم سے زیادہ حق تصرف نہیں رکھتا ہوں ؟پیغمبر کے اس سوال میں لفظ اولیٰ بنفس کا استعمال ہوا ہے۔
پہلے سب لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرار لیا اور اسکے بعد بلافصل ارشاد فرمایا:” فمن كان الله و رسوله مولاه فعلي مولاہ “ یعنی جس جسکا الله اور اسكا رسول مولا هے اس اس کے علی ؑ مولا ہیں۔
ان دو جملوں کوملانے کا ہدف کیاہے؟کیا اس کے علاوہ بھی کوئی ہدف ہو سکتا ہے کہ بنص قرآن جو مقام پیغمبراسلام ﷺ کو حاصل ہے، وہی علی ؑ کے لئےبھی ثابت کریں؟صرف اس فرق کے ساتھ کہ وہ پیغمبر ہیں اور علی ؑ امام؛
نتیجہ میں حدیث غدیر کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ جس جس سے میری اولویت کی نسبت ہے اس اس سے علی ؑ کو بھی اولویت کی نسبت ہے ۔
اگرپیغمبرﷺ کا اس کے علاوہ اور کوئی ہدف ہوتا،تو لوگوں سے اپنی اولویت کا اقرارلینے کی ضرورت نہیں تھی ۔یہ انصاف سےکتنی دور ہوئ بات ہے کہ انسان پیغمبر اسلام ﷺ کے اس پیغام کو نظرانداکردے اور تمام قرائن کی روشنی میں آنکھیں بند کرکےگذرجائے۔
اگر اس سے مولا علی ؑ کی دوستی مراد تھی تو اس کے لئے تویہ ضروری نہیں تھا کہ جھلسا دینے والی گرمی میں اس مسئلہ کو بیان کیا جاتا۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد پر مشتمل قافلہ کو روکا جاتا اور تیز دھوپ میں چٹیل میدان کے تپتے ہوئے پتھروں پرلوگوں کوبیٹھا کرمفصل خطبہ بیان کیاجاتا ۔
کیا قرآن نے تمام مومنین کو ایک دوسرےکا بھائی نہیں کہا ہے؟جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے
انما المؤمنون أخوة
مومنین آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں
سورة الحجرات 10
۔کیا قرآن نے دوسری آیتوں میں مومنین کو ایک دوسرے کے دوست کی شکل میں نہیں پہچنوایا ہے؟
اور علی ؑ بھی اسی مومن سماج کی ایک فرد تھے، لہٰذا کیا ان کی دوستی کے اعلانکی الگ سے کیا ضرورت تھی؟اور اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس اعلان میں دوستی ہی مد نظر تھی تو پھر اس کے لئے ناسازگار ماحول میں ان سب انتظامات کی کیا ضرورت تھی؟
یہ کام تو مدینہ میں بھی کیا جا سکتا تھا۔ یقینا کوئ بہت اہم مسئلہ درکار تھا جس کے لئے ان استثنائی مقدمات کی ضرورت پیش آئی،کیونکہ اس طرح کے انتظامات رسول الله ﷺکی زندگی میں نہ کبھی پہلے دیکھے گئے اور نہ ہی اس واقعہ کے بعد نظر آئے ۔ اب آپ فیصلہ کریں :
اگر، ان روشن قرائن کی موجودگی میں بھی کوئی شک کرے کہ رسول الله ﷺکا مقصد امامت و خلافت نہیں تھا توکیا یہ تعجب والی بات نہیں ہے ؟وہ افراد جو اس میں شک کرتے ہیں اپنے آپ کوکس طرح مطمئن کریں گے اور روز محشر الله کو کیا جواب دیں گے ؟یقینا اگرتمام مسلمان تعصب کو چھوڑ کر از سر نو حدیث غدیر پر تحقیق کریں تو حقیقی وصحیح نتیجوں پر پہونچیں گے اور یہ کام مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں آپس یاتحاد میں اضافہ کا سبب بنے گا اور اس طرح اسلامی سماج ایک نئی شکل اختیارکر لیگا۔…
(1)إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة..
أحمد بن أبي بكر بن إسماعيل البصيري..
المجلد التاسع حديث 8974
رواه إسحاق بسند صحيح…
(2 )المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية
المؤلف: ابن حجر العسقلاني
حديث 3943
وقال ابن حجر
هذا إسناد صحيح….
(3)شرح مشكل الآثار
المؤلف: أبو جعفر الطحاوي
المحقق: شعيب الأرناؤوط
الجز الخامس حديث 1760
اسناده حسن….
(4)كتاب السنة ومعه ظلال الجنة في تخريج السنة
المؤلف: ابن أبي عاصم
المحقق: الألباني، أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين
حديث 1558…..