جب کبھی ھم اھلسنت سے صحابہ کے بارے میں بات کرتے ہے تب وہ پہلے ہی کہتے ہے کہ صحابہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ کے بعد سب سے افضل ہے. آج ھم انکی اس غلط فہمی کا ازالہ کریں گے تا کہ حق سامنے آئے

اسماعیل ( بن جعفر ) نے علاء سے ، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان میں آئے اور فرمایا:’’ اے ایمان والی قوم کے گھرانے! تم سب پر سلامتی ہو ہم بھی ان شاءاللہ تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ، میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو ( بھی ) دیکھا ہوتا۔‘‘ صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے جواب دیا :’’ تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک ( دنیا میں ) نہیں آئے ۔‘‘ اس پر انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو، جو ابھی ( دنیا میں ) نہیں آئے ، کیسے پہچانیں گے ؟ تو آپ نے فرمایا :’’ بتاؤ ! اگر کالے سیاہ گھوڑوں کے درمیان کسی کے سفید چہرے ( اور ) سفید پاؤں والے گھوڑے ہوں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو نہیں پہچانے گا ؟ ‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں ، اے اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا :’’ وہ وضو کی بنا پر روشن چہروں ، سفید ہاتھ پاؤں کے ساتھ آئیں گے اور میں حوض پر ان کا پیشرو ہوں گا۔
حوالہ : [ صحیح مسلم – حدیث ۵٨۴ ]

ابن محیریز بیان کرتے ہےکہ میں نے اصحاب میں سےایک آدمی ابو جمعہ سے کہا : ھمیں ایک ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ ﷺوآلہ سے سنی ہو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں ایک اچھی سی حدیث سناتا ہوں ھم نے رسول اللہ ﷺ و آلہ کے ساتھ کھانا کھایا. ابو عبیدہ بن جراح بھی ھمارے ساتھ تھے انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! کیا ھم سے بھی کوئی افضل ہے ؟ ھم نے اسلام قبول کیا اور آپکے ساتھ مل کر جہاد کیا، آپ نے فرمایا :” ہاں وہ لوگ جو تہمارے بعد آئیں گے اور وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں۔”
حوالہ : [ مسند احمد بن حنبل – جلد ہفتم – روایت ١٧١٠١، ١٧١٠٢ ]
یہ روایت مشکاۃ مصابیح میں بھی موجود ہے. آگے علامہ تبریزی ( مشکاۃ کے مولف ) لکھتے ہے :

اور رزین نے ابو عبیدہ سے ان الفاظ سے روایت کیا ہے , انہوں نے کہا : اللہ کے رسول ! کیا کوئی ھم سے بہتر ہے ؟ آخر حدیث تک
نیچھے کتاب کے محقق حافظ زبیر علی زائی نے اوپر والی روایت کے بارے میں یوں کہا :
اسکی سند حسن لزاۃ ہے ، اسے امام احمد نے مسند میں لایا ہے ، امام دارمی نے سنن میں اور امام حاکم نے اسکو صحیح کہا ہے اور امام ذھبی نے امام حاکم کی موافقت کی۔
حوالہ : [ مشکاۃ مصابیح – جلد ٣ – ٥٩٨ – رقم ٦٢٩١ ]

“ابن محیریز بیان کرتےہےکہ میں نے اصحاب میں سےایک آدمی ابو جمعہ سے کہا : ھمیں ایک ایسی حدیث بیان کریں جو آپ نے رسول اللہ ﷺوآلہ سے سنی ہو، انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں تمہیں ایک اچھی سی حدیث سناتا ہوں ھم نے رسول اللہ ﷺ و آلہ کے ساتھ کھانا کھایا. ابو عبیدہ بن جراح بھی ھمارے ساتھ تھے انہوں نے عرض کیا، اللہ کے رسول ! کیا ھم سے بھی کوئی افضل ہے ؟ ھم نے اسلام قبول کیا اور آپکے ساتھ مل کر جہاد کیا، آپ نے فرمایا :” ہاں وہ لوگ جو تہمارے بعد آئیں گے اور وہ مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں۔” ( سند صحیح )
حوالہ : [ الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين – ج١ – ص ٢٠٨ ]

امام احمد، ابو یعلی اور طبرانی نے حضرت انس سے روایت کیا ہے فرماتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا سعادت ہے اس کے لیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات مرتبہ سعادت ہے جو مجھ پر ایمان لایا اور مجھے دیکھا نہیں۔
حوالہ : [ تفسیر در منثور – جلد اول – صحفہ ٨٢ ]
: [ مسند ابو یعلی – جلد سوم – صحفہ ١۴١، ١۴٢ – روایت ٣٣٧٨ ]
: [ الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين – جلد ١ – صحفہ ٢٠٨ ]

حضورﷺ نے فرمایا : “میری خواہش ہے کہ ہم نے اپنے بھائیوں کو ( بھی ) دیکھا ہوتا۔‘‘ صحابہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ؟ آپ نے جواب دیا :’’ تم میرے ساتھی ہو اور ہمارے بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک ( دنیا میں ) نہیں آئے ۔‘‘
حوالہ : [ الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين – ج١ – ص٢٠٨ ]
: [ مسند ابو یعلی – جلد سوم – صحفہ ١۴١ – روایت ٣٣٧٧ ]

البزار، ابویعلی، المرہبی نے فضل العلم میں، حاکم (انہوں نے اسے صحیح بھی کہا ہے) نےحضرت عمر بن خطاب سے روایت کیا۔ فرماتے ہیں میں نبی کریمﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا آپ نے ارشاد فرمایا مجھے بتاؤ کےایمان والوں میں سےازروئے ایمان افضل کون ہیں؟ صحابہ نے کہا یا رسول اللہﷺ ملائکہ؟ فرمایا وہ اسی طرح ہیں انکے لیے ایمان قبول کرنا حق تھا اور انکو ایمان لانے سے کوئی چیز مانع نہ تھی ۔ اللہ نے ان کو وہ مقام دیا جو اللہ نے انہیں عطا فرمایا۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ﷺ انبیاء کا ایمان افضل ہوگا جنہیں اللہ تعالی نے اپنے پیغامات اور نبوت سے نوازا۔ آپ نے فرمایا وہ اسی طرح ہیں انکےلیے ایمان قبول کرنا حق تھا اور انہیں کوئی چیز ایمان قبول کرنے سے مانع نہ تھی ۔ اللہ نے انہیں وہ مقام عطا فرمایا تھا جو انہیں عطا فرمایا تھا صحابہ نے کہا یارسول اللہ پھر شہداء کا ایمان افضل ہوگا جو انبیاء کے ساتھ شہید ہوئے فرمایا وہ بھی اسی طرح ہیں کہ ان کے لیے ایمان قبول کرنا حق تھا اور کوئی چیز انہیں مانع بھی نہیں تھی ۔۔ جبکہ اللہ تعالی نے انہیں انبیاء کی شہادت کے شرف سے نوازا تھا بلکہ ان کے علاوہ وہ لوگ ہیں جو ازروئے ایمان کے افضل ہیں صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ وہ کون ہے فرمایا وہ لوگ جو انہی مردوں کی صلبوں میں ہیں میرے بعد آئیں گے،مجھ پر ایمان لائیں گے جب کہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں، وہ میری تصدیق کریں گے حالانکہ کے انہوں نے مجھے دیکھا نہیں، وہ ملعق کاغذ پائیں گے اس میں جو ہوگا اس پر عمل پیراہوں گے یہ لوگ ازروئے ایمان افضل ہیں.
حوالہ : [ تفسیر درمنثور – جلد اول – صحفہ ٧٩ ، ٨٠ ]
: [ المستدرک علی الصحیحین – جلد پنجم – روایت ٦٩٩٣ ]

امام الطیالسی، احمد اور بخاری نے تاریخ میں الطبرانی اور حاکم نے حضرت ابوامامہ الباہلی سے روایت کیا ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا، اس کے لیے سعادت ہے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سات مرتبہ سعادت ہے اس کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا حالانکہ اس نے مجھے نہیں دیکھا۔
حوالہ [ تفسیر درمنثور – جلد اول – صحفہ ٨٢ ]

امام احمد اور ابن حبان نے حضرت ابوسعید الخدری سے انہوں نے رسولﷺ سے روایت کیا کہ ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ سعادت ہے اس شخص کے لئے جس نے آپ کی زیارت کی اور آپ پر ایمان لایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا سعادت ہے اس کےلیے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا اور سعادت پھر سعادت پھر سعادت ہے اس کے لیے جو مجھ پر ایمان لایا اور میری زیارت نہیں کی۔
حوالہ [ تفسیر درمنثور – جلد اول – صحفہ ٨٢ ]