ابوہریرہ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ نماز پڑھی اور فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ شیطان میرے سامنے آگیا تھا اور نماز تڑوانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں ، لیکن اللہ تعالی نے مجھے اس پر غالب کر دیا۔ پھر حدیث کو تفصیل کے ساتھ آخر تک بیان کیا۔

(صحیح بخاری/ انٹرنیشنل نمبروں : 3284)

ام المؤمنین حضرت عائشہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے نکلے رات کو ، ان کو غیرت آئی (وہ یہ سمجھیں کہ آپ ﷺ اور کسی زوجہ کے پاس تشریف لے گئے ) پھر آپ ﷺ آئے اور میرا حال دیکھا۔ آپ ص نے فرمایا: ” کیا ہوا تجھ کو اے عائشہ! کیا تجھ کو غیرت آئی؟“ میں نے کہا: مجھے کیا ہوا جو میری سی زوجہ ( کم عمر ، خوب صورت ) کو آپ ﷺ ایسے خاوند پر رشک نہ آئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “کیا تیرا متنوع شیطان تیرے پاس آ گیا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا میرے ساتھ شیطان ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کیا: آپ ﷺ کے ساتھ بھی ہے یا رسول اللہ ! آپ ص نے فرمایا ہاں لیکن میرے پروردگار نے میری مدد کی حتی کہ میں سلامت رہتا ہوں ۔“

(صحیح مسلم/ انٹرنیشنل نمبرنگ : 7110)

حضرت عمر نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آنحضرت ﷺ کے پاس آپ کی کئی بیویاں جو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے خرچ دینے کے لئے تقاضا کر رہی تھیں اور پکار پکار کر باتیں کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر نے اجازت چاہی تو وہ جلدی سے بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر آنحضرت ص نے ان کو اجازت دی اور وہ داخل ہوئے۔ آنحضرت ص اس وقت ہنس رہے تھے۔ حضرت عمر نے عرض کیا اللہ آپ کو خوش رکھے یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آنحضرت ص نے فرمایا ان پر مجھے حیرت ہوئی جو ابھی میرے پاس تقاضا کر رہی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو فوراً بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ حضرت عمر نے اس پر عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے، پھر عورتوں کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا اپنی جانوں کی دشمن ! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو اور اللہ کے رسول سے نہیں ڈرتیں۔ انہوں نے عرض کیا آپ آنحضرت ص سے زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آنحضرت ص نے فرمایا ہاں اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی تمہیں راستے پر آتا ہوا دیکھے گا تو تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستہ پر چلا جائے گا۔

(صحیح بخاری/ انٹرنیشنل نمبرنگ : 6085)

قارئین کرام ایک ہی کتاب کی دو مختلف روایات ہیں ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ شیطان حضرت عمر سے اس قدر خائف تھا کہ وہ انہیں آتا دیکھ کر راستہ بدل لیتا تھا اور ان سے دور بھاگ جاتا تھا جبکہ دوسری روایت میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شیطان رسول اللہ ﷺ کی نماز میں حائل ہو کر ان پر زور کرنے لگتا کہ رسول اللہ ﷺ اپنی نماز توڑ دیں معاذاللہ۔ ان دونوں روایات کو پڑھنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو نبی ﷺ اللہ تعالی کی شریعت لے کر آئے ، اللہ تعالیٰ نے جنہیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی سرداری سے نوازا اور آدم علیہ السلام سے لے قیامت تک کے انسانوں میں سب سے زیادہ افضلیت عطا کی اس پاک نبی ﷺ کی نماز میں تو شیطان حائل ہو سکتا ہے لیکن اس کے بر عکس ایک ایسا شخص جس نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی بت پرستی کرتے ہوئے گزاری، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے شدید ترین مخالفوں میں سے تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد بھی بہت سے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرتے رہے اور اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی کا باعث بنتے رہے ان کے پاس اتنی طاقت اور اختیار تھا کہ شیطان انہیں دیکھ کر اپنا راستہ بدل لیتا تھا اور ان سے دور ہو جاتا تھا۔ اس قسم کی جھوٹی اور من گھڑت روایات گڑھنے والوں نے یہ بھی خیال نہ کیا کہ کچھ خاص شخصیات کی شان اور فضائل بڑھانے کے چکر میں اس قدر اندھے ہو گئے کہ رسول ﷺ کی شان اقدس میں ہی توہین کر ڈالی

کیا شیطان عمر کے سائے سے بھی بھاگتا ہے؟
’حضرت سعد بن ابن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں خوب اونچی آواز سے گفتگو کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور پردے میں چلی گئیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرانے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ آپ کے دندانِ مبارک کو تبسم ریز رکھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس تھیں کہ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے میں چھپ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! آپ زیادہ حق دار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ عورتوں نے جواب دیا ہاں! آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں سخت گیر اور سخت دل ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب! اس بات کو چھوڑو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘(بخاری شریف3294)
کسی شخص نے حضرت عمر کے پاس قرآن پڑھا ھے تو حضرت عمر کو غصہ آیا اس نے کہا کہ میں نے یہی اٰیت پیغمبرؐ کے سامنے پڑھی ھے تو رسول کریم ؐ کو کوئی غصہ نہیں آیا آپ کو کیوں غصہ آیا کہ ھم (عمر خود کہتا ھے )چلے گئے رسول کریم ؐ کے پاس تو اس نے وھی آیت پڑھی آپؐ نے فرمایا اچھا پڑھا ھے تم نے ، حضرت عمر کے دل میں شک آگیا تو رسول خدا نے فرمایا اے عمر قرآن سب صیحح ھے پس قرآن پڑتے جاو عذاب کو مغفرت نہ بناو اور مغفرت کو عذاب نہ بناو
مجمع الزوائد و منبع الفوائد جلد سابع حدیث نمبر 11570 صفحہ نمبر 313-314
اسی حدیث کو تفسیر طبری جلد 1 صفحہ 25 حدیث نمبر 16میں تحریر ھے کہ کسی شخص نے حضرت عمر کے پاس قرآن پڑھا ھے تو حضرت عمر کو غصہ آیا اس نے کہا کہ میں نے یہی اٰیت پیغمبرؐ کے سامنے پڑھی ھے تو رسول کریم ؐ کو کوئی غصہ نہیں آیا دونوں چلے گئے نبی کریم ؐ کے پاس اور کہا رسول اللہ کیا آہ نے وہ آیت مجھے اسطرح نہیں تعلیم دی تھی پیغمبرؐ نے فرمایا جی ھاں تو عمر کے دل میں کوئی بات آگئی تو پیغمبر کو عمر کے چہرے پتہ چل گیا تو نبی کریم نے عمرکے سینے پر مارا اور فرمایا دفعہ ھو جا شیطان آپؐ نے یہ بات تین دفعہ بولی
کیا دنیا میں انبیاء سے بڑھ کر کوئی افضل ہے

کیا حضرت آدم نبی تھے

کیا حضرت آدم کے پاس شیطان گیا تھا

جی بالکل ۔ اس میں کوئی شک نہیں۔
اچھا پھر یہ بتائیں کہ
جب حضرت آدم علیہ السلام کے پاس شیطان جاسکتا ہے تو حضرت عمر کے پاس کیوں نہیں؟؟؟

جبکہ تم یہ کہتے نظر آتے ھو کہ شیطان حضرت عمر سے ڈرتا تھا۔

یا تو مان لو کہ حضرت عمر افضل تھے حضرت آدم علیہ السلام سے

یا پھر کہو کہ حضرت عمر سے شیطان نہیں ڈرتا تھا اور اس کے متعلق مفتیان کرام جھوٹ کا دامن پکڑے ہوئے ہیں۔