حضرت ابوبکر و عمر کا رسول اللّٰه ﷺ کے سامنے آوازیں بلند کرنا

حضرت ابوبکر و عمر کا رسول اللّٰه ﷺ کے سامنے آوازیں بلند کرنا اور ان کی مزمت میں پروردگار عالم نے قرآن میں آیات نازل کیں‼️
📖ابن ابی ملیکہ نے فرمایا کہ قریب تھا کہ دو بہترین شخص یعنی حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ہلاک ہو جاتے جبکہ بنی تمیم کا وفد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔ ان میں سے : ایک نے اقرع بن حابس حنظلی کی جانب اشارہ کیا جو نبی مجاشع کا بھائی تھا دوسرے نے کسی اور کی جانب۔ پس حضرت ابوبکر نے حضرت عمر سے کہ آپ نے میری مخالفت کا ارادہ کیا تھا۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تو آپ کی مخالفت کا ارادہ نہیں کیا ۔ پس دونوں حضرات کی آوازیں نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں بلند ہو گئیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اپنی آواز میں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو بیشک وہ جو اپنی آوازیں پست کرتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پر ہیز گاری کے لئے پرکھ لیا ہے ان کے لئے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ (الحجرات ۲-۳)
📚(صحیح بخاری/ انٹرنیشنل نمبرنگ : 7302 ، 4367 ، 4845 ، 4847 )
🛑معتقدین بخاری ملاحظہ کریں یہ اہل سنت کی معتبر کتاب ہے وہ لوگ جو اس کتاب کو قرآن کے بعد سب سے صحیح ترین کتاب سمجھتے ہیں فیصلہ کریں کہ حضرات شیخین جو بارگاہ رسالت میں بیٹھنے کے آداب سے نا آشنا ہیں۔ جنکو رسول اللہ ﷺ کی تعظیم کرنے کا نہیں پتا اور رسول اللہ ﷺ کے سامنے اپنی آوازوں کو اس قدر بلند کر رہے ہیں کہ انکی مزمت خود پروردگار عالم قرآن پاک میں فرما رہا ہے۔ ایسے افراد بھلا رسول اللہ ﷺ کے جانشین کیسے ہو سکتے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہوں؟؟ افسوس کہ جن کی مزمت میں قرآن کی آیتیں آرہی ہیں رسول اللہ ﷺ کی امت نے انہیں کو اپنا پہلا اور دوسرا خلیفہ بنا لیا کیا یہ حکم الہی کی کھلم کھلا خلاف ورزی نہیں؟؟