بسم اللہ الرحمن الرحیم
فاتح کوفہ قاتل قاتلان امام حسین ؑ حضرت امیر مختار بن ابو عبیدہ الثقفی رضوان اللہ تعالی علیہ پر دعوی نبوت کی تہمت کا رد
احباب ذی وقار تاریخ اسلام میں جتنا بغض و عناد آل محمد علیھم السلام سے رکھا گیا اتنا ہی بغض و عناد ان کے محبین سے رکھا گیا چشم فلک نے کئ ایسے نظارے دیکھے جن میں کئ محبان اھلبیت خاک و خون میں تڑپتے نظر آتے ہیں یہ خونچکاں داستان بہت لمبی ھے جس کو کبھی وقت کی مناسبت سے چھیڑیں گے
ابن نما حلی نے لکھتا ھے
ثم جعل يتكلم بفضل آل محمد وينشر مناقب علي والحسن والحسين عليهم السلام ويسير ذلك ويقول إنهم أحق بالأمر من كل أحد بعد رسول الله ويتوجع لهم مما نزل بهم.
پھر مختار نے آل محمد (ع) کی فضیلت کے بارے میں کلام کیا اور لوگوں کے درمیان حضرت علی امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے فضائل اور مناقب پھیلایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ رسول خدا کے بعد انکے اہل بیت ہی مقام خلافت کے لیے سب سے زیادہ مناسب ہیں۔
ابن نما الحلي، جعفر بن محمد بن جعفر بن هبة الله (متوفي 645هـ)، ذوب النضار في شرح الثار، ص61 تحقیق فارس حسون ،کریم ناشر مؤسسة النشر الإسلامي التابعة لجماعة المدرسين بقم المشرفة، الطبعة الاولي 1416
ہمارا موضوع حضرت مختار پر اس روایت کا رد ھے جس کو لیکر ان پر دعوی نبوت کی تہمت لگائ جاتی ھے
جبکہ حضرت مختار کی 18 ماہ کی قیادت اور وہ خود ان سارے الزامات سے بری الذمہ ہیں
بلکہ مختار نے قاتلان امام عالی مقام ؑ سے بدلہ لیکر وہ کام کیا جو کہ تاریخ میں کوئ نہ کر سکا
کیونکہ امام حسین ؑ کو دکھ دینے والا یقینا اللہ کے رسول ﷺ کو تکلیف دینے والا ھے
اس لیے کربلا کا بدلہ لیکر یقینا جناب مختار رسول کریم ﷺ کی مسرت کا سبب رھے ہوں گے
موضوع لمبا نہ ہو جاۓ اس لیے ہم ان اقوال کی طرف آتے ہیں جن کو لیکر حضرت مختار پر دعوی نبوت کا الزام عائد کیا جاتا ھے
حقیقت تو یہ ھے کہ مختار پر یہ جھوٹا الزام تب لگا جب انہوں نے قاتلان امام حسین ؑ کو تہہ تیغ کرنے کے لیے کوفہ کی امارت پر حملہ کیا اور ابن زیاد وغیرہ کی حکومت کو گرا دیا ورنہ اس سے پہلے مختار خود عبداللہ بن زبیر کی حکومت میں واقعہ حرہ میں کعبہ کا دفاع کرتے ہوۓ زخمی بھی ہوۓ
اس وقت یہ الزام کیوں عائد نہ ہوا اس سے پتا چلتا ھے کہ مختار پر الزام امارت کوفہ پر بیٹھنے پر اور محبت حسین ؑ و محبت اھلبیت ؑ رکھنے پر لگا
اور معصب بن زبیر نے ان پر حملہ کر کے ان کو شہید کیا
ابو حاتم الرازی نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کیا ھے جس کے تحت مختار پر الزام عائد کیا جاتا ھے
روایت کچھ یوں ھے
حدثنا أبو سعيد الأشج، ثنا أبو بكر بن عياش، عن أبي إسحاق، قال رجل لابن عمر: إن المختار يزعم أنه يُوحَى إليه، قال: صدق، فتلا هذه
الآية: ﴿وَإِنَّ الشَّيَطِينَ لَيُوحُونَ إِلَى أَوْلِيَا بِهِمْ )
[الأنعام: 121
ابو سعید الاشج ابو بکر بن عیاش سے روایت کرتے ہیں وہ ابو اسحاق سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک شخص انے بن عمر سے کہا کہ مختار کو گمان ھے کہ اس پر وحی آتی ھے تو ابن عمر نے کہا سچ ھے پھر اس آیت کی تلاوت کی
یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ تم سے جدال کریں
تفسیر ابن ابی حاتم۔جلد 5 ص 353
پہلی بات کیا کسی پر وحی آنے سے وہ نبی ہو جاتا ھے تو آۓ قرآن سے ہوچھتے ہیں
سورہ النحل آیت نمبر ۶۸ میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے
وَأَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَ مِنَ الشَّجَرِ وَ مِمَّا يَعْرِشُونَ
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کی طرف وحی کی کہ کچھ پہاڑوں اور کچھ درختوں میں سے گھر بنا اور اس میں سے بھی جنہیں وہ چڑھاتے ہیں
اب اللہ نے شہد کی مکھیوں کی طرف وحی کی ھے تو کیا وہ نبی بن گئیں تھیں
اس لیے یہ استدلال ہی باطل ھے کہ وحی صرف انبیاء پر ہی آتی ھے اب آتے ہیں اس روایت کی طرف جو اوپر بیان ہوئ ھے
یہ روایت ابن عمر سے گو کہ اس کے رجال اھلسنت کے نزدیک
ثقات ہیں لیکن میں چند علتیں بھی ہیں
ہم اس روایت میں علت کے سبب بیان کرتے ہیں
1 سب سے پہلی بات مختار کوفہ میں رہتے تھے تھا جبکہ ابن عمر کبھی کوفہ نہیں گئے
تو ان کو کیا پتا کہ مختار نے یہ کلام کیا بھی ھے یا نہیں
2 دوسری علت ابن عمر سے ابو اسحاق سبیعی روایت کرتا ھے روات کے الفاظ قال رجل لابن عمر
ایک شخص ابن عمر کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ مختار کو گمان ھے
اب جس شخص نے مختار کے بارے میں ابن عمر سے بدخوہی کی وہ شخص مجہول ھے اس کا پتا نہیں ھے کہ کون ھے
اور ابو اسحاق سبیعی کو بھی علم نہیں کہ وہ رجل کون ھے
3 تیسری علت یہ ھے روایت میں لفظ یزعم یعنی گمان اور ظن معنی میں آۓ گا اور علماء کو بخوبی پتا ھے زعم کے معنی گمان کے ہیں یعنی ظن اس سے مراد حقیقت نہیں ہو سکتی اس لیے یہ روایت ان علل کی بناء پر قابل استدللال نہیں ھے
دوسرا قول ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب جمھرة انساب العرب میں مختار کے حوالے سے لکھا ھے
المختار بن عبيد الذي ادعى النبوة بالكوفة
مختار بن ابی عبید نے کوفہ میں دعوی نبوت کیا
جمھرة انساب العرب ص 268
ابن حزم نے اس قول کو بلاسند نقل کیا ھے ابن حزم خود چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کا مورخ اور ایک شاعر فلسفی اور جغرافیہ دان تھا
مشہور اھلسنت سکالر مفتی غلام رسول کے مطابق ابن حزم ناصبی تھے ملاحظہ ہو حسب و نسب غلام رسول
اس لیے اس بےسند قول کی بھی کوئ حقیقت نہیں ھے
تیسرا مشہور قول ذھبی کا ھے
– المختار بن أبي عبيد الثقق الكذاب . لا ينبغي أَنْ يُرْوَى عنه شيء لأنه ضال مضل . كان يزعم أن جبرائيل عليه السلام ينزل عليه
ذھبی کہتا ھے کہ مختار بن ابی عبیدہ الثقفی کذاب ھے اس سے کچھ روایت کرنا صحیح نہیں کیونکہ یہ گمراہ کرتا ھے اور گمراہ ھے اس کو گمان ھے کہ اس پر جبرائیل آتے ہیں
ذھبی کا یہ قول اس کی ناصبیت کی کھلی گواہی ھے کیونکہ اس قول کی کوئ حقیقت ہی نہیں ھے اور زھبی کے اس قول کی کوئ دلیل بھی نہیں ھے کیونکہ دعوی محتاج دلیل ہوتا ھے
اگر مختار نے دعوی نبوت کیا ھے تو اصحاب رسول ﷺ اس کے پیچھے نماز کیوں اداء کرتے رھے جبکہ دعوی نبوت کرنے والوں کا اسلام سے کیا سرو کار
مطلب یہ کہ اصحاب رسول خدا ﷺ نعوذ باللہ ایک ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرتے رھے جو کہ مدعی نبوت
تھا اب
ہم اھلسنت کے چند فقھاء کے قول نقل کرتے ہیں جس سے ثابت ہو گا کہ کافر کے پیچھے نماز نہیں ہوتی
اہل سنت کے مذہب کے مطابق کافر کی امامت میں نماز پڑھنے کے شرعی حکم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تمام مذاہب اسلامی میں امام جماعت کی خاص شرائط کو ذکر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے بعض شرائط مختلف ہوں، لیکن تمام مذاہب اسلامی کا اتفاق ہے کہ امام جماعت کو مسلمان ہونا چاہیے۔
امام شافعی نے کہا ہے کہ
إِمَامَةُ الْكَافِرِ – ( قال الشَّافِعِيُّ ) رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى وَلَوْ أَنَّ رَجُلًا كَافِرًا أمَّ قَوْمًا مُسْلِمِينَ ولم يَعْلَمُوا كُفْرَهُ أو يَعْلَمُوا لم تَجْزِهِمْ صَلَاتُهُمْ
امامت کافر شافعی نے کہا ہے کہ اگر ایک کافر مسلمانوں کے امام جماعت بننے کا عہدہ اپنے ذمہ لے لے، مسلمان اسکے کافر ہونے کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، تو انکی نماز اس کافر کے پیچھے صحیح نہیں ھے
ا، محمد بن إدريس أبو عبد الله (متوفي 204هـ)، الأم، ج 1، ص 168، دار النشر: دار المعرفة – بيروت، الطبعة: الثانية 1393
ابن ازہری نے لکھا ہے کہ
فاعلم أن الذكورة المحققة شرط في صحة الإمامة، ويزاد على هذا الشرط شروط أخر وهي: الاسلام، فلا تصح إمامة الكافر.
آگاہ ہو جاؤ کہ امام جماعت کی امامت کے صحیح ہونے کے لیے اس کا مرد ہونا شرط (ضروری) ہے۔ اس شرط کے علاوہ دوسری شرائط کا بھی امام جماعت میں ہونا ضروری ہے۔ ان شرائط میں سے ایک اسلام ہے، پس امام جماعت کا کافر ہونا صحیح نہیں ہے۔
الآبي الأزهري، صالح عبد السميع (متوفي 9999هـ)، الثمر الداني في تقريب المعاني شرح رسالة ابن أبي زيد القيرواني، ص 148 ، دار النشر: المكتبة الثقافية – بيروت
ابراہیم شیرازی نے بھی شافعی کے قول کو اس بارے میں بیان کیا ہے کہ:
ولا تصح إمامة الكافر لانه ليس من أهل الصلاة فلا يجوز أن يعلق صلاته على صلاته….
کافر کا امام جماعت ہونا صحیح نہیں ہے،
کیونکہ وہ اہل نماز نہیں ہے، پس کسی مسلمان کا اپنی نماز کو اس کافر کی نماز پر موقوف کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔۔۔
الشيرازي الشافعي، ابو إسحاق إبراهيم بن علي بن يوسف (متوفى 476هـ)، المهذب في فقه الإمام الشافعي، ج1، ص97، ناشر: دار الفکر
اب ہم۔ابن حزم اندلسی کا ہی قول نقل کرتے ہیں جس میں واضح ہو جاۓ گا کہ صحابہ کی کثیر تعداد جو اس وقت زندہ تھی اور وہ مختار کی اقتداء میں نماز پڑھتی تھی
۔ابن حزم کہ جو علمائے اہل سنت کا مورد اکرام عالم ھے اس نے
اپنی کتاب میں واضح قول نقل کیا ھے ھے کہ میں نے کسی صحابی کو نہیں دیکھا کہ جس نے مختار ابن عبیدہ کے پیچھے نماز نہ پڑھی ہو یہ چیز اس بات کی علامت ھے کہ صحابہ مختار کو مسلمان مانتے تھے
پس ابن تیمیہ ناصبی اور اس کے پیرو کاروں کی طرف سے مختار پر نبوت کے دعوی وغیرہ کرنے والی تمام تہمتیں جھوٹی اور غلط ہیں
نواصب کے پیرو کاروں کی طرف سے مختار پر تمام تہمتیں صرف اہل بیت اطہار ؑ کے خون کا انتقام لینے کی وجہ سے لگائ گئ ہیں
ابن حزم اندلسی نے اپنی کتاب المحلی میں کہا ہے کہ
قال عَلِيٌّ: ما نَعْلَمُ أَحَدًا من الصَّحَابَةِ رضي الله عنهم امْتَنَعَ من الصَّلاةِ خَلْفَ الْمُخْتَار وعبيد الله بن زِيَادٍ
وَالْحَجَّاجِ وَلَا فَاسِقَ أَفْسَقُ مِن هَؤُلَاءِ.
على ابن حزم نے کہا ہے کہ میں صحابہ میں سے کسی صحابی
کو نہیں جانتا کہ جس نے مختار، عبید اللہ ابن زیاد اور حجاج جیسے فاسق بندے کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کیا ہو
إبن حزم الأندلسي الظاهري، ابو محمد علي بن أحمد بن سعيد (متوفى 456هـ)، المحلي، ج4، ص214، تحقيق: لجنة إحياء التراث العربي، ناشر: دار
الآفاق الجديدة – بيروت
اسی طرح ابن سعد نے کتاب
الطبقات الکبری میں سند معتبر کے ساتھ نقل کرتے ہیں
قال حدثنا أبو شهاب (الحناط
عن يونس بن عبيد بن دينار عن نافع مولى ابن عمر قال قيل لابن عمر زمن بن الزبير والخوارج والخشبية أتصلي مع هؤلاء ومع هؤلاء وبعضهم يقتل بعضا قال فقال من قال حي على الصلاة اجبته ومن قال حي على الفلاح أجبته ومن قال حي على قتل أخيك وأخذ ماله قلت لا.
عبد اللہ ابن زبیر، خوارج
اور خشبیہ کے زمانے میں عبد اللہ ابن عمر سے کہا گیا کہ کیا تم ان ان کے ساتھ نماز پڑھتے ہو، حالانکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل
کرتے ہیں ؟ اس نے جواب دیا: جوکرتے ہیں : اس نے جو میں اسکی آواز پر لبیک کہتا ہوں، اور جو کہے: جلدی آؤ فلاح و کامیابی کی طرف، میں اسکی ندا پر لبیک کہتا ہوں، لیکن جو کہے اور اسکا مال لوٹنے کے لیے، تو میں اسکی بات کو نہیں مانتا۔
محمد بن سعد بن منيع ابو
عبد الله البصري (متوفى 230هـ)، الطبقات الكبرى
،ج4، ص ،169 ناشر: دار صادر –
بيروت.
تحقیق
سید ساجد بخاری