ام المومنین جناب عائشہ بنت ابی بکر کو کس نے مارا

چند معتبر کتب سے حوالے نوٹ فرمائیں کہ آیا ام المومنین
جناب عائشہ اپنی منہ موت مری یا ام المومنین عائشہ کو
قتل کردیا گیا تھا؟
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ
سنہ 58 ھجری میں بیبی عائشہ فوت ہوکر جنت البقیع
میں مدفون ھوئین، آپ مروان کی مخالفت کیا کرتے تھی
کیونکہ اس کے اعمال خبیث تھے مروان نے ایک روز دھوکے
سے دعوت کے بھانے سے بلا کر ایک گڑھے میں جس (ننگی
تلوارین اور خنجر وغیرہ رکھ دیئے تھے آپ کو گرادیا تھا
آپ بہت ضعیف اور بوڑھی تھیں زخمی ھوئین اور انہیں
زخموں کے صدمے سے فوت ھوگئین،
حوالہ نوٹ کرے ۔۔تاریخ الاسلام از اکبر شاہ ج دوم ص 37
معتبر مورخ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ
ام المومنین عائشہ؛ آپ کو مروان اور اس کے خاندان والوں
نے شھید کیا تھا اس وجہ سے کہ اس کی مخالفت کرتی تھیں اس نے دعوت کے بھانے سے اپنے گھر بلا کر اور پہلے ایک گڑھا عمیق کھود کر اس میں نیزے تلوارین چھریان وغیرہ رکھ دی تھیں اوپر سے ایک فرش بچا دیا تھا
ام المومنین عائشہ جب تشریف لائیں تو ان کو وہیں بٹھلیا
بیٹھنا تھا کہ نیچے گر پڑیں،معمر اور کمزور تھیں
اپنی چھوٹ آئی کہ پھر اس سے جانبر نہ ھوئین،
حوالہ نوٹ کرے ۔۔تاریخ ابن خلدون ج 2
عالم اھلسنت رشید الدین فضل اللہ ہمدانی لکھتے ہیں کہ
و در ربیع الابرار زمخشری و در کامل السفنیه این حدیث
معتبر است که معاویه عایشه را به خانه خود دعوت کرد
و سر چاهی به نی بپوشید و بر آن کرسی آبنوسین نهاد
و عایشه ام المؤمنین را بر آنجا نشاند بر نشستن و فرو
رفتن همان بود معاویه بفرمود نا چاه را با آهک بینباشتند
کہ ی حدیث معتبر ہیں کہ ایک روز معاویہ نے اپنے گھر میں
کنوان کھودا اور اس کو تنکون سے پاٹ دیا اور آبنوس کی
ایک کرسی اس کے اوپر رکھی اور جناب عائشہ کو ضیافت کے بہانے سے بلا کر اس کرسی پر بٹھایا اور ام المومنین اس
پر بیٹھتے ہی یکبارگی کوئین میں جا پڑیں ۔۔اللہ اکبر
حوالہ نوٹ کرے ۔۔جامع التواریخ ج 2 ص 1218
امام اھلسنت محمد صالح کشفی الترمذی السُّنی الحنفی
لکھتے ہیں کہ
صاحب حبیب السیر جلد اول میں تاریخ حافظ ابرو
ربیع الابرار زمخشری اور کامل السفنیہ سے نقل کیا ہے
کہ جب سنہ 57 میں معاویہ بن سفیان یزید کے واسطے
بیعت لینے کی غرض سے مدینہ گیا اور حسین بن علی
عبداللہ بن عمر عبدالرحمن بن ابی بکر اور عبداللہ بن زبیر
کو آزرون کیا، عائشہ اس پر معترض ہوئی اور ملامت کی
پس معاویہ نے اپنے گھر میں ایک کنوان کھودا اور اس کو تنکون سے پاٹ دیا اور آبنوس کے اوپر رکھی
اور جناب عائشہ کو ضیافت کے بہانے سے بلا کر اس کرسی پر بٹھایا، ام المومنین اس پر بیٹھتے ہی یکبارگی کوئین میں جا پڑیں معاویہ کوئین کو دہانہ چونے سے مضبوط کرکے مدینہ سے چلا گیا: اللہ اکبر
حوالہ نوٹ کرے ۔مناقب مرتضوی ترجمہ فضائل علی
ص 476
تاریخ حبیب السیر میں لکھا ہے کہ
در تاریخ حافظ ابرو از ربیع الابرار و کامل السفینه منقول
است که در شهور سنه سنة و خمسین که معاویه بن ابوسفیان جهت بیعت پسر یزید بمدینه رفته حسین بن علی
عبدالله بن عمر و عبدالرحمن بن ابی بکر و عبدالله بن زبیر
را بر نجانید عایشه صدیقه زبان ملامت و اعتراف
بر وی بگشاه و معاویه در خانه خویش جاهی کنده سر آن
را بخاشاک پوشیده و کرسی آبنوس بر زیر آن نهاد آنگاه
صدیقه عایشه را جهت ضیافت طلب داشت و بر آن کرسی
نشاند نادر جاه افناد معاویه سر جاه را بآهک مضبوط کرده
از مدینه بمکه رفت..
حوالہ نوٹ کرے تاریخ الحبیب السیر ج اول ص 458
ترجمہ وہی ہے جو مناقب مرتضوی میں لکھا ہے
عالم الاسلام کی مایہ ناز کتاب الطرائف فی معرفتہ
میں لکھا ہے کہ
وقالت صه هل استدعي الشيوخ لبينهم البيعة فقال
معاوية لا فقالت فبمن اقتديت فخجل معاوية و نزل
من المبر و حفر حفيرة لعائشة و احتالها و القاهافبه
فمانت :
وفي روية اخري ان عائشة ذهبت الي منزل معاوية وهي
راكبة علي حمار فجادت يحمار ها علي بساط معاويه و علی
سريرها فبالت الحمار وراثت علي بساطهما فشكي معاويه
الي مروان وقال له لا طاقة لي الي تحمل لاء هولاالعجوذة
فتولي مروان باذن معاويه أمر عائشة و دبرلها حفر البئر فوقعت فيه في آخر ذالحجة وقال الشاعر
نفد ذهب الحمار بام عمر. فلا رجعت ولا رجع الحمار
جب معاویہ نے مدینہ میں آکر یزید کی خاطر بیعت لینا
چاہی تو حضرت عائشہ نے حجرے سے سر نکالا اور فرمایا
معاویہ رک جا رک جا کیا پہلے بزرگون نے بھی اپنی اولاد
کی خاطر بیعت لی ہے معاویہ نے کہا نہیں، عائشہ نے کہا
تو پھر کس کی پیروی کر رہا ہے معاویہ نے شرمسار ہوا
ممبر سے اتر آیا اور حضرت عائشہ کی خاطر ایک گڑھا
کھدوایا اور پھر مکر وحیلہ کیا اور جناب عائشہ کو گڑھے
میں پھینک دیا اور بی بی جی مرگئی
دوسرے روایت میں کہ بیعت یزید خبیث سے معاویہ
کو روکنے کے لئےحضرت عائشہ گدھے پر سوار ہوکر
خود معاویہ کے پاس گئی اور گدھے کو معاویہ کی قالین
پر ہی لے گئیں اس قالین پر گدھے نے پیشاب اور گوبر کیا
معاویہ کو اس سے دکھ ہوا اور مروان سے شکایت کی کہ
اب اس پر بڑھیا کی مصبیت برداشت کرنے کا مجھ میں
حوصلہ نہیں ہے پھر مروان نے معاویہ کی اجازت سے
حضرت عائشہ کا بندوست کرنا اپنے ذمے لیا اور کنوان
کھودنے کی تدبیر کی اور بی بی جی اس میں گر گی
یہ واقعہ آخر ذالحجہ کا ہے اور اس واقعہ پر کسی
شاعر نے کہا کہ
گیا گدھے ام عمرو کو پس نہ ام عمرو واپس آئی اور نہ
ہی گدھا لوٹا
حوالہ نوٹ کرے ۔الطرائف فی معرفتہ مذاہب الطوائف ص 503
تبصرہ ۔۔
جو نوا صب اپنے لعنت زدہ گنجے سر سے لے کر اپنے ٹہڑے
پاوں اور پھٹی ہوئی ایڑیون تک زور لگا کر کہتے ہیں کہ
معاویہ نبی کریم ص کا سالا ہے، ہم ان کو دعوت فکر دیتے ہیں کہ معاویہ اسلام کا مامون تو بن بیٹھا مگر اس نے
مسلمانوں کی ماں کو قتل کر کے اپنے تمام فضائل جھر لو
پھیر لیا، جو نوا صب بانچھین ٹہڑین کرکے کہتے ہیں کہ حضرت عائشہ محبوبہ رسول اللہ تھیں وہ ہمیں بتائیں
کہ اس محبوبہ رسول اللہ کی قبر کہاں ہے ؟معاویہ نے
دنیا میں ام المومنین عائشہ کی قبر کا نشان ہی مٹادیا