میرے اھلبیت ؑ میرے صحابہ سے قریب نہیں ?

اب آتے ہیں اس روایت کی طرف جس میں طحاوی نے اپنا مدعا بیان کرنے کی کوشش کی ھے
یہ روایت سنة لابن ابی عاصم سے نقل ھے روایت کچھ یوں ھے
#طحاوی کی بونگیاں لکھتا ھے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میرے اھلبیت ؑ میرے صحابہ سے قریب نہیں
امام ابن ابی عاصم (المتوفى: (287هـ) اپنی تصنیف میں
روایت نقل کرتے ہیں: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ حُمَيْدِ الْكُوفِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ خَرَجَ مَعَهُ يُوصِيهِ، ثُمَّ الْتَفَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ فَقَالَ: «إِنَّ أَهْلَ بَيْتِي هَؤُلَاءِ يَرَوْنَ أَنَّهُمْ أولى النَّاسِ بِي، وَلَيْسَ كَذَلِكَ إِنَّ أَوْلِيَائِي مِنْكُمُ الْمُتَّقُونَ، مَنْ
كَانُوا وَحَيْثُ كَانُوا …. الخ
حضرت معاذ بن جبل فرماتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ انکے ساتھ تشریف فرما تھے پھر آپ نے اپنا رخ مدینہ شریف کی
طرف کیا اور فرمایا میرے اہل بیت یہ سمجھتے ہیں کہ وہ
لوگوں میں میرے سب سے زیادہ قریب ہیں۔ جبکہ ایسا نہیں
ہے ۔ تم میں سے متقی لوگ میرے قریبی ساتھی ہیں خواہ
وہ جو بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں۔۔۔۔
السنة ابن ابی عاصم، برقم: 212، وسنده جيد صحيح
یہ روایت ان متواتر اور صحیح ترین روایات سے ٹکراتی ھے جس میں رسول خدا ﷺ نے اپنے بعد اپنے صحابہ کو ہی محبت اھلبیت ؑ کا قطعی حکم صادر فرمایا
اور اس کی نص قرآن مقدس سے بھی واضح طور پر ثابت ھے ہم اس سلسلے میں صرف تین روایات نقل کریں گے جو کی اھلسنت کی صحیح ترین کتب میں نقل ہوئ ہیں
جب رسول خدا ﷺ نے اپنے صحابہ کو محبت اھلبیت رکھنے کا حکم دیا ھے جو کہ متواتر ھے تو ایک ایسی روایت جس سے یہ ثابت ہو کہ اھلبیت ؑ صحابہ سے زیادہ قریب نہیں ہیں ضرور من گھڑت ھے
اور اس کو محض اہل۔شام نے بغض آل رسول خدا ﷺ میں گھڑ کے ثقہ لوگوں سے منسوب کیا ھے
اس روایت کے رجال کو واضح کرنے سے قبل ہم وہ روایات نقل کرتے جن میں واضح طور پر حکم خدا اور رسول خدا ﷺ موجود ھے
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ : لَمَّانَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اللهِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِي الْقُرْبَي) نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! آپ کی قرابت کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الطبراني
المعجم الکبير، 3 / 47، الرقم : 2641، اور
الهيثمي نے مجمع الزوائد، 9 / 168.
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : أَحِبُّوْا اللهَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اللهِ عزوجل. وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کے سبب اور میرے اہل بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن ہے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أهل البيت النبي ﷺ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک 3 / 162، الرقم : 4716، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم 408
عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رضي الله عنه قَالَ : قُلْتُ : يَارَسُولَ اللهِ، إِنَّ قُرَيْشًا إِذَا لَقِيَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا لَقُوهُمْ بِبَشْرٍ حَسَنٍ، وَإِذَا لَقُوْنَا لَقُوْنَا بِوُجُوهٍ لاَ نَعْرِفُهَا. قَالَ : فَغَضِبَ النَّبِيُّ ﷺ غَضَبًا شَدِيْداً، وَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَ يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِيْمَانُ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ لِقَرَابَتِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.
و في رواية : قَالَ : وَاللهِ، لَا يَدْخُلُ قَلْبَ امْرِيءٍ إِيْمَانٌ حَتَّي يُحِبَّکُمْ لِلّهِ وَلِقَرَابَتِي.
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو ایسے چہروں سے ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے (یعنی جذبات سے عاری چہروں کے ساتھ) حضرت عباس فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم ﷺ یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔‘‘ اسے امام احمد، نسائی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : خدا کی قسم کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777_ 17656 _17657، _17658
والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس
ان روایات کی روشنی میں ثابت ہوتا ھے کہ سنة ابن ابی عاصم کی یہ روایت ان متواتر اور صحیح ترین روایات سے شدید متعارض ھے جس کو ان روایات کے مقابلے میں گھڑا گیا ھے
اب ہم اس روایت کے رجال کی طرف آتے ہیں اور کتب رجال اھلسنت سے ہی ثابت کرتے ہیں کہ یہ سارے راوی شامی اور حمصی راوی ہیں
پہلے راوی
1 محمد بن عوف
حافظ ذھبی لکھتے ہیں محمد بن عوف ابن سفیان الامام الحافظ المجود محدث حمص ابو جعفر الطائ
حمص شام کا ہی ایک علاقہ ھے
سیر اعلام النبلاء ج 12 ص 614
دوسرے راوی
2ابو المغیرہ
یہ بھی حمص کے شامی راوی ہیں
ذھبی کہتے ہیں ابو المغیرہ الامام المحدث عبدالقدوس بن الحجاج الخولانی الحمصی
سیر اعلام النبلاء ج 10 ص 224
تیسرے راوی
3صفوان بن عمرو ابن ھرم
یہ بھی حمصی اور شامی راوی ہیں
ذھبی کہتے ہیں
الامام المحدث ابو عمر السکسکی الجھنی محدث حمص
سیر اعلام النبلاء ج 6 ص 381
چوتھے راوی
4 راشد بن سعد المقرئ ہیں
یہ بھی شامی اور حمصی راوی ہیں
اور یہ ان لوگوں میں بھی شامل ہیں جنہوں نے مولا علی ؑ کی خلافت برحقہ کے خلاف بغاوت کی اور مولا علی ؑ کے خلاف تلوار اٹھائ
اس بات کی گواہی ذھبی نے سیر میں دی ھے
انہوں نے مولا علی ؑ کے خلاف صفین میں تلوار اٹھائ اور معاویہ بن ابی سفیان کا ساتھ دیا
ذھبی لکھتے ہیں وقیل انہ یروی ایضاً عن عوف بن مالک الاشجعی وانہ شھد صفین مع معاویہ فان صح ھذا
عوف بن مالک کہتے ہیں یہ صفین میں معاویہ بن ابی سفیان کے ساتھ تھا
اور یہ قول ہی صحیح ھے
سیر اعلام النبلاء ج 4 ص 490
اسی طرح ابن منظور نے مختصر تاریخ دمشق میں اور ابن عساکر نے تاریخ مدینہ و دمشق میں نقل کیا ھے
قال صفوان بن عمرو السکسکی ذھبت عین راشد بن سعد یوم صفین
صفوان بن عمرو جو کہ اسی روایت کے راوی بھی ہیں کہتے ہیں ان کی ایک آنکھ اس جنگ جنگ صفین میں غائب ہوگئ یا نکل گئ
تاریخ مدینہ و دمشق ج 17 ص 451
5 پانچویں راوی بھی حمصی ہیں
ذین الدین العراقی نے زیل میزان الاعتدال میں لکھا ھے
عَاصِم بن حميد السكونِي الْحِمصِي
روى عَن عمر وَغَيره وَعنهُ رَاشد بن سعد وَغَيره بعد میں کدھر کوفہ آے
اس سے ثابت ہوتا ھے کہ یہ روایت دیگر صحیح اور متواتر روایات متصادم شامیوں کا من گھڑت شاہکار ھے