کیا زرارہ امام موسیٰ کاظم ع کے حقِ امامت کو نہیں پہچانتے تھے ؟

کیا زرارہ امام موسیٰ کاظم ع کے حقِ امامت کو نہیں پہچانتے تھے ؟
جس روایت کی بنا پر یہ اعتراض کیا گیا وہ یہ ہے :
حَدَّثَنَا أَبِي رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْعَطَّارُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ يَحْيَى بْنِ عِمْرَانَ الْأَشْعَرِيِّ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ هِلَالٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَارَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: لَمَّا بَعَثَ زُرَارَةُ عُبَيْداً ابْنَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيَسْأَلَ عَنِ الْخَبَرِ بَعْدَ مُضِيِّ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ‌ ع فَلَمَّا اشْتَدَّ بِهِ الْأَمْرُ أَخَذَ الْمُصْحَفَ وَ قَالَ مَنْ أَثْبَتَ إِمَامَتَهُ هَذَا الْمُصْحَفُ فَهُوَ إِمَامِي .
جب زرارہ رض کی وفات کا وقت قریب آیا تو زرارہ نے اپنے بیٹے کو مدینہ بھیجا تاکہ وہ امام جعفر ع کے بعد ( امامت ) کے بارے میں پوچھے لیکن جب معاملہ سخت ہوا تو زرارہ نے قرآن ہاتھ میں پکڑا اور کہا جسکی امامت اس مصحف سے ثابت ہے وہی میرا امام ہے ۔
📗 کمال الدین و تمام النعمہ صفحہ 168
حدیث کی سند پر ایک نظر :
شیخ صدوق اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں
هذا الخبر لا يوجب أنه لم يعرف على أن راوي هذا الخبر أحمد بن هلال‌ و هو مجروح عند مشايخنا رضي الله عنهم
اور یہ خبر اس بات کی دلیل نہیں کہ زرارہ رض امام موسیٰ کاظم ع کی امامت سے واقف نہیں تھے کیوں کہ اس خبر کا راوی احمد بن ہلال ہمارے مشائخ کے ہاں مجروح ہے ۔
📗 کمال الدین و تمام النعمہ صفحہ 169
ایت اللہ خوئی اس راوی کے ترجمہ میں نقل کرتے ہیں
شیخ طوسی نے لکھا
وذكر في التهذيب، في ذيل الحديث (812) من الجزء (9): أن أحمد بن هلال، مشهور بالغلو والل – عنة وما يختص بروايته لا نعمل عليه ۔
احمد بن ہلال غلو اور لع — نت سے متہم ہے اور جو روایت نقل کرنے میں یہ منفرد ہو ہم اس ہر عمل نہیں کرتے ۔
وقال في كتاب الغيبة: في فصل، في ذكر طرف من أخبار السفراء الذين كانوا في حال الغيبة: روى محمد بن يعقوب، قال: خرج إلى العمري – في توقيع طويل اختصرناه -: ونحن نبرأ إلى الله تعالى، من ابن هلال – لا رحمه الله – وممن لا يبرأ منه۔
شیخ طوسی نے غیبت طوسی میں کہا شیخ کلینی نے روایت کیا : امام مھدی ع کے نائب کے پاس طویل توقیع نکلی جس کو ہم نے مختصر کیا ہے : اور ہم اللہ کی جانب سے بری ہیں احمد بن ہلال سے ، اللہ اس پر رحم نہ کرے اور ہم اس سے بھی بری ہیں جو اس سے بیزار نہ ہو ۔
وقال الصدوق في كتاب كمال الدين: في البحث عن اعتراض الزيدية، وجوابهم ما نصه: حدثنا شيخنا محمد بن الحسن بن أحمد بن الوليد (رضي الله عنه) قال: سمعت سعد بن عبد الله، يقول: ما رأينا ولا سمعنا بمت — شيع رجع عن تشي – عه إلى الن — صب، إلا أحمد بن هلال، وكانوا يقولون: إن ما تفرد بروايته أحمد بن هلال، فلا يجوز استعماله۔
شیخ صدوق نے کمال الدین میں کہا , ابن ولید نے کہا کہ سعد بن عبداللہ نے بتایا میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو شی — عت سے نا — صبیت کی طرف پلٹا ہو سوائے احمد بن ہلال کے اور جس روایت میں یہ منفرد ہو اس پر عمل جائز نہیں ۔ ہم جانتے ہیں کہ نبی ص اور آئمہ ع اسکی شفاعت نہیں کریں گے ۔
📗 معجم رجال الحديث – السيد الخوئي – ج ٣ – الصفحة ١٤٩
متن پر مختصر سی نظر
اس روایت سے اصلاً یہ ثابت ہوتا ہی نہیں
شیخ صدوق لکھتے ہیں
و الخبر الذي احتجت به الزيدية ليس فيه أن زرارة لم يعرف إمامة موسى بن جعفر ع و إنما فيه أنه بعث ابنه عبيدا ليسأل عن الخبر
جس روایت سے زیدیہ نے استدلال کیا کہ زرارہ امام موسیٰ کاظم ع کی امامت سے واقف نہیں تھا ، اس روایت میں تو فقط اتنا ہے کہ زرارہ نے اپنے بیٹے کو بھیجا کہ وہ حالات کا پتا کرسکے ۔
📗 کمال الدین و تمام النعمہ صفحہ 168
اس کی دلیل میں شیخ صدوق نے امام الرضا ع کی حدیث بھی نقل کی ہے
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِيَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ هَاشِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى بْنِ عُبَيْدٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْهَمْدَانِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قُلْتُ لِلرِّضَا ع يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَخْبِرْنِي عَنْ زُرَارَةَ هَلْ كَانَ يَعْرِفُ حَقَّ أَبِيكَ ع فَقَالَ نَعَمْ فَقُلْتُ لَهُ فَلِمَ بَعَثَ ابْنَهُ عُبَيْداً لِيَتَعَرَّفَ الْخَبَرَ إِلَى مَنْ أَوْصَى الصَّادِقُ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ع فَقَالَ إِنَّ زُرَارَةَ كَانَ يَعْرِفُ أَمْرَ أَبِي ع وَ نَصَّ أَبِيهِ عَلَيْهِ وَ إِنَّمَا بَعَثَ ابْنَهُ لِيَتَعَرَّفَ مِنْ أَبِي ع هَلْ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَرْفَعَ التَّقِيَّةَ فِي إِظْهَارِ أَمْرِهِ وَ نَصِّ أَبِيهِ عَلَيْهِ وَ أَنَّهُ لَمَّا أَبْطَأَ عَنْهُ ابْنُهُ طُولِبَ بِإِظْهَارِ قَوْلِهِ فِي أَبِي ع فَلَمْ يُحِبَّ أَنْ يُقْدِمَ عَلَى ذَلِكَ دُونَ أَمْرِهِ فَرَفَعَ الْمُصْحَفَ وَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنَّ إِمَامِي مَنْ أَثْبَتَ هَذَا الْمُصْحَفُ إِمَامَتَهُ مِنْ وُلْدِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع
ابراہیم ہمدانی کہتے ہیں میں نے امام علی الرضا ع سے کہا ، اے فرزند رسول ص مجھے زرارہ کے بارے میں بتائیں کہ کیا وہ امام موسیٰ کاظم ع کا حق امامت پہچانتا تھا ، امام ع نے کہا ہاں وہ پہچانتا تھا ، راوی کہتا ہے میں نے کہا پھر انہوں نے اپنے بیٹے کو مدینہ کیوں بھیجا کہ وہ پتا کرے کہ امام جعفر صادق ع کے بعد امام کون ہے ؟ امام الرضا ع نے فرمایا زرارہ رض امام موسیٰ کاظم ع کے حوالے سے واقف تھے ، زرارہ نے اپنے بیٹے کو اس لیے بھیجا کہ امام جعفر ع سے جان لیں کہ آیا تقیہ ختم کرنا اور امام موسیٰ ع کے معاملے کا اظہار کرنا ، جب انکے فرزند نے دیر کر دی تو لوگوں نے ان سے اس متعلق پوچھا تو انہوں نے نہیں چاہا کہ امام ع کی اجازت کے بغیر کچھ کہیں ، پس انہوں نے مصحف اٹھایا اور کہا کہ میرا امام وہ ہے جسکی امامت اس مصحف سے ثابت ہوتی ہے ۔
📗 کمال الدین و تمام النعمہ صفحہ 168 ، شیخ احمد ماحوزی نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے ( وسنده صحیح ، رجاله ثقات )
اسکے علاؤہ امام صادق ع نے زرارہ کو جنت کی بشارت بھی دی ہے جبکہ ایسا شخص جنتی نہیں جو اپنے امام ع جو ہی نہ پہچانتا ہو اس سے بھی ہمارے مطلب کی تائید ہوتی ہے ۔
مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ فَضَّالٍ، قَالَ حَدَّثَنِي أَخَوَايَ مُحَمَّدٌ وَ أَحْمَدُ ابْنَا الْحَسَنِ، عَنْ أَبِيهِمَا الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ فَضَّالٍ عَنِ ابْنِ بُكَيْرٍ، عَنْ زُرَارَةَ، قَالَ: قَالَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) يَا زُرَارَةُ إِنَّ اسْمَكَ فِي أَسَامِي أَهْلِ الْجَنَّةِ بِغَيْرِ أَلِفٍ، قُلْتُ نَعَمْ جُعِلْتُ فِدَاكَ اسْمِي عَبْدُ رَبِّهِ وَ لَكِنِّي لُقِّبْتُ بِزُرَارَةَ.
زرارہ کہتے ہیں امام جعفر صادق ع نے فرمایا اے زرارہ تیرا نام جنت میں الف کے بغیر لکھا ہوا ہے تو میں نے کہا آپ پر فدا ہو جاؤں میرا نام عبد ربہ ہے لیکن میرا لقب زرارہ مشہور ہوگیا۔
📗 إختيار معرفة الرجال المعروف بـ رجال الكشي ج 1 ، ص 123
ہوسکتا ہے کوئی کہے کہ تحریر کے شروع میں احمد بن ہلال کی وجہ سے روایت کو غیر معتبر بتایا گیا ہے لیکن جس حدیث میں امام علی الرضا ع نے اس کا صحیح مطلب بتایا تو اس سے احمد بن ہلال کی روایت کی توثیق ہے ، تو ان کے لیے یہ کہوں گا ہوسکتا ہے کہ اعتراض کرنے والا ضدی ہو اور وہ امام الرضا ع والی حدیث کا انکار کرے تو پھر احمد بن ہلال کی روایت بھی سرے سے ثابت نہیں ہوگی کیونکہ اسکی سند میں تو ویسے ہی علت ہے ۔ لہذا دونوں صورتوں میں ہماری جیت اور معترض کی ہار ہے۔