وطی فی الدبر

وطی فی الدبر کے بارے میں مرفوع حدیث :
میں انگریزی میں اس پر کئی مرتبہ تحریر کرچکا ہوں کہ وطی فی الدبر کی تحریم کی بابت تمام مرفوع احادیث ضعیف ہیں، اس کے برعکس سلف سے اس بارے میں اختلاف منقول ہے اور امام مالک اور اہل مدینہ اس کے جواز کے قائل رہے ہیں اور میرے نزدیک ان ہی کہ تحقیق راجح ہے۔
اس کے بعد چند دلائل پیش خدمت ہیں :
(1) امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہے :
ليس فيه يعني في إتيان النساء في الدبر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في التحريم والتحليل حديث ثابت، والقياس أنه حلال
عورتوں کی دبر میں جماع کے حلال یا حرام ہونے کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث صحیح ثابت نہیں، قیاس یہ کہتا ہے یہ حلال ہے (کیونکہ اصل ہر اشیاء میں اباحت ہے حتی کے حرمت ثابت ہوجائے).
(آداب الشافعي ومناقبه ص١٦٦ وسنده صحيح)
امام شافعی کے دو مذھب ہیں، جدید اور قدیم۔ قدیم مذھب میں آپ نے اپنے استاذ امام مالک کے دلائل سے متاثر ہوکر اس کی حلت کا فتویٰ دیا بعد میں قیاس ہی کی بناء پر اس کی حرمت کا۔
لیکن آپ نے بعد میں بھی یہ نہیں کہا کہ اس کی حرمت کے بارے میں کوئی حدیث صحیح ثابت ہے۔
(2)۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ ” مَنْ أَتَى حَائِضًا أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا أَوْ كَاهِنًا فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم “
‏رسول الله ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے:
حائضہ سے جماع کیا، یا
عورت سے لواطت کی، یا
وہ کسی کاہن کے پاس گیا (غیب کا حال جاننے کے لئے)،
تو اُس نے محمد ﷺ پر نازل کی گئی شریعت کا انکار کر دیا!
(مشکوٰۃ المصابيح 551،ابوداؤد 3904؛ جامع ترمذی 135؛ ابن ماجہ 639)
(3).امام ترمذی اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وَضَعَّفَ مُحَمَّدٌ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ .
امام ںخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اسناد کی قبل سے ضعیف قرار دیا ہے۔
(جامع ترمذی 135).
(4)۔ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہے :
سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَلَمْ يَعْرِفْهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ وَضَعَّفَ هَذَا الْحَدِيثَ جِدًّا
میں نے امام بخاری سے اس حدیث کی بابت پوچھا اور ان کو اس یہ طرق کے علاوہ معلوم نہ تھا اور اس کو سخت ضعیف قرار دیا۔
(العلل الکبیر ص91)
(5). امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہے :
قال الحفاظ في جميع الأحاديث المرفوعة في هذا الباب وعدتها نحو عشرين حديثا كلها ضعيفة لا يصح منها شئ والموقوف منها هو الصحيح
ائمہ حفاظ نے کہا اس باب میں تمام مرفوع احادیث جن کی تعداد بیس کے قریب ہے تمام کی تمام ضعیف ہیں اور ان میں سے ایک بھی صحیح نہیں اور ان میں سے موقوف صحیح ہیں۔
(الدر المنثور – جلال الدين السيوطي – ج ١ – الصفحة ٢٦٥)
یعنی ائمہ علل کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی حرمت میں کچھ ثابت نہیں ۔
(6). حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہے :
ذهب جماعة من أئمة الحديث –كالبخاري والذهلي والبزار والنسائي وأبي علي النيسابوري– إلى أنه لا يثبت فيه شيء
اور ائمہ حدیث کی جماعت جیسے امام بخاری، امام ذھلی، امام بزار، امام نسائی اور امام ابو علی النیساپوری رحمہم اللہ اس طرف گئے ہیں کہ اس بارے میں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) سے کچھ ثابت نہیں ۔
(فتح الباری 8/191).
ابن حجر نے اس کے بعد کہا کہ کثرت طرق اس کو قابل احتجاج بنادیتی ہیں جو کہ پھر حسن لغیرہ اور دیگر فقہی امور پر بحث ہے جس کا یہ موقع محال نہیں اور مختصراً ائمہ علل متقدمین کے مقابلے پر غیر ثابت احادیث شعریت حلال حرام میں قابل اعتبار نہیں۔
ہمارے نزدیک ائمہ علل کا موقف راجح ہے اور امام مالک، اہل مدینہ اور امام شافعی کا قدیم مذھب۔
🖊️ محمد کاشف خان
.
.
.
بخاری کا روایت میں تحریف کرنا جس میں عبداللہ بن عمر عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے جماع کی جوازیت پیش کر رہ تھا📖
محمد بن اسماعیل بخاری نے اسحاق بن راھویہ سے اور انہوں نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ نافع نے بیان کیا کہ جب ابن عمر قرآن پڑھتے تو اور کوئی لفظ زبان پر نہیں لاتے یہاں تک کہ تلاوت سے فارغ ہو جاتے۔ ایک دن میں (قرآن مجید لے کر) ان کے سامنے بیٹھ گیا اور انہوں نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی۔ جب اس آیت «نساؤكم حرث لكم» الخ پر پہنچے تو فرمایا، معلوم ہے یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی تھی؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں، فرمایا کہ فلاں فلاں چیز نازل ہوئی تھی اور پھر تلاوت کرنے لگے۔
⛔صحیح بخاری – محمد بن اسماعیل بخاری // صفحہ ۷۶۹ // رقم ۴۵۲۶ // طبع دار السلام ریاض سعودیہ۔
آپ دیکھ سکھتے ہو کہ بخاری نے ایک حدیث بیان کی جس میں ایک آیت کا شان نزول بیان کیا لیکن جہاں سبب بیان کرنا تھا وہاں ھمیشہ کہ طرح “فلاں فلاں” لکھ دیا۔
بخاری صاحب آخر اس میں چھپانا کیا چاھتا تھا ؟
اسکے لے اگر ھم صحیح بخاری کی شرح کی طرف رجوع کریں گے تو ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں یوں لکھتا ہے کہ اسحاق بن راھویہ نے اپنی مسند میں اسی سند سے روایت نقل کی ہے لیکن وہاں فلاں فلاں کے بدلے یوں لکھا ہے “
“۔۔۔۔یہ آیت عورتوں کے ساتھ پیچھے کے راستے سے جماع کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔۔۔۔”
⛔فتح الباری فی شرح صحیح بخاری – ابن حجر عسقلانی // جلد ۸ // صفحہ ۲۴۰ // طبع مکتبہ اشرفیہ دیوبند ھندوستان۔
بہت ڈھونڈنے کے بعد بھی ھمیں یہ روایت مسند اسحاق بن راھویہ کے اردو مطبوعہ نسخے میں نہیں ملی۔ شاید انہوں نے اس روایت کو اس کتاب میں جگہ دینے کی زحمت ہی نہیں کی ہے۔ مگر عربی والے نسخے میں یہ روایت موجود ہے۔