سعد بن عبداللہ قمی نے حضرت امام محمد مہدی ؑ سے کچھ سوالات کئے جن میں سے ایک سؤال یہ تھا
لوگوں کو خود اپنے لئے امام منتخب کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا گیا؟
سعد بن عبدالله قمی کہتے ہیں:
میں نے عرض کیا کہ لوگوں کو خود اپنے لئے امام منتخب کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا گیا؟
آپ نے فرمایا: کیسا امام مصلح یا مفسد ؟ میں نے عرض کیا: مصلح. آپ نے فرمایا یہ بھی تو ممکن ہے کہ لوگ مصلح کی جگہ مفسد منتخب کر لیں لوگوں کو دوسروں کے دل کا حال تو نہیں معلوم کہ اس میں اصلاح ہے یا فساد۔ میں نے عرض کیا جی سرکار یہ تو ممکن ہے۔ آپ نے فرمایا: یہی وجہ ہے۔
اچھا ایک اور دلیل سنو: یہ بتاؤ وہ انبیاء ماسلف کہ جن کو الله نے خود منتخب فرمایا جن پر کتابیں نازل فرمائیں اور وحی و عصمت کے ساتھ ان کی تائید فرمائی اور وہ اپنی امت میں سب سے زیادہ عالم تھے جیسے جناب موسیٰ ؑ و عیسیٰ ؑ کہ باوجود کمال عقل و علم کہ جب انہوں نے خود انتخاب کا ارادہ کیا تو ان کے انتخاب میں منافق بھی آ گئے اور وہی یہی سمجھتے رہے کہ یہ مومن ہیں۔
میں عرض کیا جی ہاں حضور ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا: دیکھو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جو کلیم الله ہیں میقات کے لیے افراد کا انتخاب کیا۔ جن کے ایمان و اخلاص میں انہیں کوئی شک نہیں تھا۔ مگر ان انتخاب میں منافق آ گئے چنانچہ ارشاد رب العزت ہوتا ہے کہ:
وَ اخۡتَارَ مُوۡسٰی قَوۡمَہٗ سَبۡعِیۡنَ رَجُلًا لِّمِیۡقَاتِنَا
ترجمہ: “اور موسیٰ نے ہماری مقررہ میعاد کے لیے اپنی قوم سے ستر افراد منتخب کیے”. (سورہ اعراف: آیت 155)
مگر ان منتخب شدہ ستر آدمیوں نے پلٹ کر کہا:
لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً
ترجمہ: “ہم آپ پر ہرگز یقین نہیں کریں گے جب تک ہم خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں”. (سورہ البقرہ: آیت 55)
تو اس کا نتیجہ کیا نکلا
فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۚ
ترجمہ: “سو آن پڑی ان پر بجلی ان کے گناہ کے باعث” (سورہ النساء: آیت 153)
جب ہم دیکھتے ہیں کہ جن معزز ہستیوں کو الله نے نبوت سے سرفراز فرمایا ان کا انتخاب غلط نکلا۔ حالانکہ وہ یہ ہی سمجھتے رہے کہ انہوں نے صحیح انتخاب کیا پس انتخاب کا حق صرف ذات باری تعالیٰ کو ہے جو دلوں کے بھید خوب جانتا ہے۔
(اکمال دین/ باب 43 / صفحہ 421/ حدیث 21)


