ناظرین مخالفین عموماً محرم میں یہ پروپیگنڈا بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کہ شیعہ حضرات نے امام حسین ع کو خطوط لکھے اور انہوں نےبلاکر امام حسین ع کو شہید کیا اور اب شیعہ جو غم مناتے ہیں وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے کرتے ہیں۔ چنانچہ ان امور میں کچھ چیزوں سے وہ اجمالا سہارا لیتے ہیں:
☜اہل کوفہ نے خطوط لکھے اور اہل کوفہ شیعہ تھے اور یہی اہل کوفہ ہی تھے جنہوں نے حضرت مسلم بن عقیلؑ کی بیعت کی اور بیعت کو توڑا ۔ حضرت مسلم بن عقیل ع نے ان کی بے وفاہی کی شکایت کی۔ یہی وہ کوفی تھے جن سے امام حسین ع یوم عاشورا نالا تھے، اور بعد از کربلا امام زین العابدین ع ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا حضرت ام کلثومؑ حضرت فاطمہ بنت حسین س نے انکے خلاف احتجاج کیا۔

ایسے ہی مسجد گارے اور اینٹ پھتر کے لیے بھی عمر بن الخطاب کی اجازت سے بنائی گئی تھی شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ یہ شہر عمر کے زمانے میں ہی عظمت و شان کو پہنچا اور عمر خود اسکو “راس الاسلام یعنی اسلام کا سر” کہتے تھےکہ ٦۴ ھجری میں اس شہر کی مردم شماری ہوئی تو اس کی ۵٠ ھزار گھر قبیلہ ربیعہ و مضر اور ۴٢ہزار گھر اور قبائل کے تھے ایسے ہی اہل یمن کے ٦ہزار گھر تھے اہل کوفہ پر بکواس مارنے والے احناف کی فقہ نے بھی یہی سے جنم لیا کیونکہ ابوحنیفہ قاضی ابو یوسف وغیرہ نے جو مجالس علمی منقعد کیں وہ بھی کوفہ میں کیں وہ خود کوفی تھے اسکے علاوہ آئمہ اھلسنت جنکے بارے میں حنبلیوں حنیفیوں کو کچھ علم نہیں اور بلا سوچے سمجھے شیعوں پر چڑھ دوڑتے ہیں وہ بھی کوفہ کے تھے۔
حوالہ : [ الفاروق – شبلی نعمانی – صفحہ ٢٣١-٢٣٣ ]

حوالہ : [ تاریخ ابوالفداء – صفحہ ١٣٢ ]

ان کی باتیں سن کر ابو موسیٰ اشعری نے کہا عثمان کی بیعت میری گردن اور تمہاری امیر کی گردن پر پڑی ہے۔ ہم (کوفی) اس وقت تک جنگ نہیں کریں گئے۔ جب تک علیؑ قاتلین عثمان کے قتل سے فارغ نہ ہو جائیں ۔ یہ سن کر محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر کوفہ سے واپس ہوئے۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ٣ حصہ ٢ – صفحہ ٩١ ]
اہل کوفہ جس طرح موجودہ زمانہ میں کراچی اور لاہور ہیں ویسا ایک میٹروپلیٹن شہر تھا جس میں جملہ اعتقاد رکھنے والے افراد آباد تھے ان میں کچھ شیعہ امامی بھی تھے جو مذھبی عنوان سے مخالفین کے نزدیک روافض مشہور ہیں۔ کافی تعداد اہلسنت اعتقاد رکھنے والی تھی، کچھ نواصب بھی تھے اور کچھ خوارج بھی۔ چنانچہ اہل کوفہ میں سے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا ان میں بھی بعض خاص شیعہ موالین تھے جو مذہبی اعتقاد کے مطابق امام حسین علیہ السلام کو منصوص من اللہ اور خلافت الہی کا حقدار جانتے تھے، اکثر حضرات اہلسنت معتقدات کے حامل تھے جنہوں نے لکھا جو ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر المؤمنین علیہ السلام کی خلافت بالترتیب کو صحیح جانتے تھے البتہ وہ بنو امیہ کے ظلم سے پریشان تھے

حوالہ : [ المصنف لابن ابی شیبہ – جلد ٦ – صفحہ ١٨٧ ]
جب کوفہ کی تاریخ دیکھی جائے تو اسکو آباد کرنے والے بھی عمر تھے اور پھر ما بعد عمر کی طرف سے سعد بن ابی وقاص گورنر بنے پھر عثمان آیا اور اس نے ولید کو گورنر مقرر کیا۔۔ ما بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کا مختصر زمانہ آیا لیکن اسمیں بھی جنگیں کافی ساری ہوئیں اور مولا علیہ السلام نے جب چاہا کہ ریفارم کے تحت بعض بدعات کو بند کریں تو یہی اہل کوفہ عمر کی سنت کے دفاع کے لئے کھڑے ہوگئے، پھر امام حسن علیہ السلام کا مختصر دور جب صلح پر ختم ہوا تو معاویہ کا زمانہ آتا ہے اور مغیرہ اور زیاد کے ذریعہ وہ اپنی ناصبیانہ پروپیگنڈا کا اجرا کرتا گیا اور مولا علی علیہ السلام پر لعنت کرواتا یہاں تک کہ زیاد کے ذریعہ سے کافی سارے شیعوں کا قتل کرایا گیا۔

حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد۴ – حصہ اول – صفحہ ١۵٨ ]

حوالہ : [ تاریخ طبری جلد ۴ – حصہ ١ – صفحہ ١٧٦ ]
معاویہ کے ٢١ سالہ طویل دورِ حکومت میں کوفہ میں ایک اور جو تبدیلی آئی، وہ یہ تھی کہ یہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گیا جو کہ شیعانِ معاویہ پر مشتمل تھا۔ یہ گروہ معاویہ کے حکم سے منبرِ نبی سے اہل بیت پر سب و شتم کرتا تھا۔ اس گروہ کی موجودگی کا سراغ اس خط سے بھی ملتا ہے جو کہ جناب مسلم بن عقیل ع کی آمد پر ان شیعانِ معاویہ (جو کہ اب شیعان یزید ہوچکے تھے) نے یزید کو لکھا تھا:

¤ اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ھیں :
١) عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ ۔
٢) عمارہ بن عقبہ ۔
٣) عمر بن سعد بن ابی وقاص ۔

میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اورمسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو ۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ۴ – صفحہ ١۵۴ ]

حوالہ : [ البدایہ والنہایہ – جلد ہشتم – صفحہ ٢١۴ ]

حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد۴ – حصہ١ – صفحہ ١٨٧ ]

¤ جواب: قاضی صاحب کی یہ عبارت کربلا کے زمانے کی نہیں ہے بلکہ ابوحنیفہ کوفی کا ذکر کرکے قاضی صاحب نے وہ وقت بتا دیا کہ جس کا وہ تذکرہ کر رہے ہیں (یعنی قاضی صاحب واقعہ کربلا سن ٦١ ھجری کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ابو حنیفہ کوفی کے عروج کے دور کی بات کر رہے ہیں۔ اور ابو حنیفہ تو واقعہ کربلا کے وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا)
¤ ابوحنیفہ کے زمانے کے متعلق بھی یہ قاضی صاحب کی ذاتی رائے ہے لہذا ناصبی حضرات کا یہ عذر اُسوقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اس کی حمایت میں کوئی تاریخی روایت نہ پیش کریں۔ ہم نے اھل سنت کی تاریخی کتب سے کئی روایات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کربلا کے زمانے میں کوفہ میں شیعہ خاصہ یعنی عقیدتی امامی شیعہ کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی ۔ باقیوں کو زیاد ابن سمعیہ نے اپنی گورنری کے دور میں چن چن کر قتل کر دیا تھا ۔ لہذا نجس ناصبیوں کا قاضی نور اللہ شوستری کے قول واحد کو توڑ مروڑ کر عذر بیانی کرنا قابل قبول نہیں ہو سکتا بلکہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ بیغیرت ناصبی کیسے عام اھلسنت مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں










