قاتلینِ امام حسینؑ کون ؟ کوفیوں کا عقیدہ اور سیاسی پس منظر

ناظرین مخالفین عموماً محرم میں یہ پروپیگنڈا بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کہ شیعہ حضرات نے امام حسین ع کو خطوط لکھے اور انہوں نےبلاکر امام حسین ع کو شہید کیا اور اب شیعہ جو غم مناتے ہیں وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے کرتے ہیں۔ چنانچہ ان امور میں کچھ چیزوں سے وہ اجمالا سہارا لیتے ہیں:
☜اہل کوفہ نے خطوط لکھے اور اہل کوفہ شیعہ تھے اور یہی اہل کوفہ ہی تھے جنہوں نے حضرت مسلم بن عقیلؑ کی بیعت کی اور بیعت کو توڑا ۔ حضرت مسلم بن عقیل ع نے ان کی بے وفاہی کی شکایت کی۔ یہی وہ کوفی تھے جن سے امام حسین ع یوم عاشورا نالا تھے، اور بعد از کربلا امام زین العابدین ع ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا حضرت ام کلثومؑ حضرت فاطمہ بنت حسین س نے انکے خلاف احتجاج کیا۔
▪ سب سے پہلے ہم واضح کرتے ہیں کہ کوفہ شہر کو آباد کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ عمر بن الخطاب کا تھا اسلیے یہ جہالت ھے کہ اہل کوفہ میں سب شیعہ تھے شبلی نعمانی اپنی کتاب الفاروق میں لکھتے ہیں اس کوفہ شہر کی آباد کاری کی بنیاد ١٧ ھ میں رکھی گئی اور اس میں ۴٠ ہزار کنبوں کی آباد کے قابل مکانات بنوائے گئے اور ہباج بن مالک کے اہتمام سے عرب جدا جدا قبیلے جدا جدا محلوں میں آباد ہوۓ شہر کی ساخت و بناوٹ کے لیے خود عمر بن الخطاب کا تحریری حکم نامہ آیا تھا سڑکیں ۴٠ ہاتھ ٣٠ ہاتھ رکھی جائیں اور گلیاں ٧٠ ہاتھ چوڑی ہوں۔
ایسے ہی مسجد گارے اور اینٹ پھتر کے لیے بھی عمر بن الخطاب کی اجازت سے بنائی گئی تھی شبلی نعمانی لکھتے ہیں کہ یہ شہر عمر کے زمانے میں ہی عظمت و شان کو پہنچا اور عمر خود اسکو “راس الاسلام یعنی اسلام کا سر” کہتے تھےکہ ٦۴ ھجری میں اس شہر کی مردم شماری ہوئی تو اس کی ۵٠ ھزار گھر قبیلہ ربیعہ و مضر اور ۴٢ہزار گھر اور قبائل کے تھے ایسے ہی اہل یمن کے ٦ہزار گھر تھے اہل کوفہ پر بکواس مارنے والے احناف کی فقہ نے بھی یہی سے جنم لیا کیونکہ ابوحنیفہ قاضی ابو یوسف وغیرہ نے جو مجالس علمی منقعد کیں وہ بھی کوفہ میں کیں وہ خود کوفی تھے اسکے علاوہ آئمہ اھلسنت جنکے بارے میں حنبلیوں حنیفیوں کو کچھ علم نہیں اور بلا سوچے سمجھے شیعوں پر چڑھ دوڑتے ہیں وہ بھی کوفہ کے تھے۔
حوالہ : [ الفاروق – شبلی نعمانی – صفحہ ٢٣١-٢٣٣ ]
▪ جب خلیفہ دوئم کی وفات کے بعد خلیفہ ثالث کے چنائو کا مرحلہ پیش آیا۔ جس کے نتیجہ میں حضرت عثمان کا انتخاب ہوا۔ تو اہل کوفہ (جنکو شیعہ کہا جاتا ھے) نے حضرت علی (ع) کی بجائے زبیر کی خلافت کے حق میں حمایت کی۔ (یہ وہی زبیر تھا جسنے طلحہ کیساتھ ملکر حضرت علی کی بیعت کرکے توڑ ڈالی تھی۔ اور جنگ جمل میں بھی مخالفت علیؑ میں پیش پیش تھا ۔ ( اب معترضین جواب دیں۔ کہ مولا علی ع کی مخالفت اور زبیر کا ساتھ دینے والے کوفی شعیان علیؑ ہو سکتے ھیں ؟) ھرگز نہیں !! بلکہ یہ سب وھی ناصبی و خارجی دشمنان اھلبیتؑ افراد تھے جنہوں نے بامر مجبوری اپنے مقاصد کیلئے چوتھے مقام پہ مولا علی ع کی بیعت کی تھی۔
حوالہ : [ تاریخ ابوالفداء – صفحہ ١٣٢ ]
▪ مولا علیؑ نے اپنے دور میں محمد بن ابی بکر و محمد بن جعفر کو کوفہ خط دے کر بھیجا تو انہوں نے کوفہ پہنچ کر ابو موسیٰ اشعری کو خط دیا اور لوگوں سے حضرت علیؑ کے لیے جنگ میں مدد طلب کی مگر کسی نے ان کی بات کا جواب نہ دیا لوگ اشعری کے پاس جمع ہرکر ان سے رائے لی تو انہوں نے کہا: وہ شخص ( حضرت علیؑ ) جسے تم اسکے معاملات میں کمزور سمجھ رہے ہو اسی نے تمہیں ان حالات میں مبتلا کیا ہے ۔۔۔۔۔ ابوموسی کی باتوں کا کوفیوں پر اتنا اثر ہوا کہ کوئی شخص حضرت علی ع کے ساتھ مل کر جنگ میں شرکت کے لیے تیار نہیں ہوا۔ یہ بات محمد بن ابی بکر اور بن جعفر کو بہت بری معلوم ہوئی ان دونوں نے ابو موسیٰ اشعری کو برا بھلا کہا۔
ان کی باتیں سن کر ابو موسیٰ اشعری نے کہا عثمان کی بیعت میری گردن اور تمہاری امیر کی گردن پر پڑی ہے۔ ہم (کوفی) اس وقت تک جنگ نہیں کریں گئے۔ جب تک علیؑ قاتلین عثمان کے قتل سے فارغ نہ ہو جائیں ۔ یہ سن کر محمد بن ابی بکر اور محمد بن جعفر کوفہ سے واپس ہوئے۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ٣ حصہ ٢ – صفحہ ٩١ ]
اہل کوفہ جس طرح موجودہ زمانہ میں کراچی اور لاہور ہیں ویسا ایک میٹروپلیٹن شہر تھا جس میں جملہ اعتقاد رکھنے والے افراد آباد تھے ان میں کچھ شیعہ امامی بھی تھے جو مذھبی عنوان سے مخالفین کے نزدیک روافض مشہور ہیں۔ کافی تعداد اہلسنت اعتقاد رکھنے والی تھی، کچھ نواصب بھی تھے اور کچھ خوارج بھی۔ چنانچہ اہل کوفہ میں سے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا ان میں بھی بعض خاص شیعہ موالین تھے جو مذہبی اعتقاد کے مطابق امام حسین علیہ السلام کو منصوص من اللہ اور خلافت الہی کا حقدار جانتے تھے، اکثر حضرات اہلسنت معتقدات کے حامل تھے جنہوں نے لکھا جو ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر المؤمنین علیہ السلام کی خلافت بالترتیب کو صحیح جانتے تھے البتہ وہ بنو امیہ کے ظلم سے پریشان تھے
▪ معاویہ جس نے نخیلہ (کوفہ سے قریب) کے مقام پر اعلان کیا تھا کہ اس نے اہل کوفہ سے جنگ نماز، روزے، حج، زکات وغیرہ کے پرچار کے لئے نہیں کی بلکہ ان پر حکومت کرنے کے لئے کی ہے جب کہ اہل کوفہ اس زبردستی ٹھوسی حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے.
حوالہ : [ المصنف لابن ابی شیبہ – جلد ٦ – صفحہ ١٨٧ ]
جب کوفہ کی تاریخ دیکھی جائے تو اسکو آباد کرنے والے بھی عمر تھے اور پھر ما بعد عمر کی طرف سے سعد بن ابی وقاص گورنر بنے پھر عثمان آیا اور اس نے ولید کو گورنر مقرر کیا۔۔ ما بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کا مختصر زمانہ آیا لیکن اسمیں بھی جنگیں کافی ساری ہوئیں اور مولا علیہ السلام نے جب چاہا کہ ریفارم کے تحت بعض بدعات کو بند کریں تو یہی اہل کوفہ عمر کی سنت کے دفاع کے لئے کھڑے ہوگئے، پھر امام حسن علیہ السلام کا مختصر دور جب صلح پر ختم ہوا تو معاویہ کا زمانہ آتا ہے اور مغیرہ اور زیاد کے ذریعہ وہ اپنی ناصبیانہ پروپیگنڈا کا اجرا کرتا گیا اور مولا علی علیہ السلام پر لعنت کرواتا یہاں تک کہ زیاد کے ذریعہ سے کافی سارے شیعوں کا قتل کرایا گیا۔
▪جب ابن زیاد قیام مسلم بن عقیلؓ کے وقت کوفہ آیا تو اس نے ہانی سے کہا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں جب میرا باپ کوفہ آیا تو سوائے تمہارے باپ اور حجر بن عدی کے کوئی شیعہ قتل کیے باقی نہیں چھوڑا اور حجر بن عدی علیہ السلام کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ میں موجود ہے۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد۴ – حصہ اول – صفحہ ١۵٨ ]
▪حضرت ابن عباس نے امام حسین کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا کیونکہ کوفہ میں شیعوں میں حضرت ہانی اور دو چار شیعوں کے علاوہ کوئی شیعہ نہ رہ گیا تھا۔ جب ابن عباس امام حسین کے پاس دوسری مرتبہ آئے۔ تو انہوں نے کہا : برادر میں چاہتا ہوں کہ صبر کروں لیکن صبر نہیں آتا۔ اس راہ میں مجھے آپکے ہلاک ہونے کا خوف ہے اہل عراق دغا باز ہیں چنانچہ ہرگز انکے پاس نہ جائیں اس شہر میں قیام کریں کیونکہ آپ اہل حجاز کے رئیس ہیں۔ اگر عراق والے آپ کو بلاتے ہیں تو انکو لکھیں کہ وہ پہلے اپنے دشمنان سے پیچھا چھڑائیں اور صرف اس کے بعد ان کے پاس جائیں۔ اگر آپ کو یہاں سے جانا ہی منظور ہے تو یمن کی طرف چلے جائیں کہ وہاں قلعے ہیں اور پہاڑ کی گھاٹیاں ہیں، ایک طویل و عریض ملک ہے، وہاں آپکے والد کے شیعہ موجود ھیں اور وہاں آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے۔
حوالہ : [ تاریخ طبری جلد ۴ – حصہ ١ – صفحہ ١٧٦ ]
معاویہ کے ٢١ سالہ طویل دورِ حکومت میں کوفہ میں ایک اور جو تبدیلی آئی، وہ یہ تھی کہ یہاں ایک ایسا گروہ بھی پیدا ہو گیا جو کہ شیعانِ معاویہ پر مشتمل تھا۔ یہ گروہ معاویہ کے حکم سے منبرِ نبی سے اہل بیت پر سب و شتم کرتا تھا۔ اس گروہ کی موجودگی کا سراغ اس خط سے بھی ملتا ہے جو کہ جناب مسلم بن عقیل ع کی آمد پر ان شیعانِ معاویہ (جو کہ اب شیعان یزید ہوچکے تھے) نے یزید کو لکھا تھا:
▪مسلم بن عقیل کوفہ آئے ہیں شیعوں نے اُنکے ہاتھ پر حسین بن علی کی بیعت کی ہے۔ اگر آپکو کوفہ میں اپنی سلطنت قائم رکھنا ہے تو ایک طاقتور شخص کو یہاں مقرر کیجئے جو آپ کے حکم کو نافذ کرے اور دشمن کیساتھ وہ سلوک کرے ۔ جو آپ خود اگر ہوتے تو کرتے۔ اسلیے کہ نعمان بن بشیر (جو کوفہ کا حاکم ہے) وہ فطرتاً کمزور ہے یا کسی وجہ سے کمزوری کر رہا ھے ۔
¤ اس مضمون کو لکھنے والے تین آدمی ھیں :
١) عبداللہ بن مسلم بن سعید حضرمی حلیف بنی امیہ ۔
٢) عمارہ بن عقبہ ۔
٣) عمر بن سعد بن ابی وقاص ۔
▪یزید نے اس خط کے ملتے ہی ایک فرمان ابن زیاد (جو زیاد ابن سمعیہ کا بیٹا تھا) کے نام لکھا ۔ جس کی عبارت قابلِ دید ہے : ما بعد فانۃ کتب الی شیعی من اہل الکوفۃ بخیر وننی ان ابن عقیل بالکوفۃ تجمع الجموع لشق عصا المسلمین فرحین تفراء الخ ۔۔۔۔۔
میرے پاس میرے شیعوں نے جو کوفہ کے رہنے والے ہیں یہ لکھا ہے کہ ابن عقیل کوفہ میں جتھے جمع کر کے مسلمانوں کی موجودہ بنی بنائی بات کو بگاڑنا چاہتے ہیں لہذا تم فوراً وہاں جاؤ اورمسلم پر قابو حاصل کر کے سزا دو ۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد ۴ – صفحہ ١۵۴ ]
▪ امام حسینؑ نے عراق جانے کے سوا اور کوئی بات نہ مانی تو حضرت ابن عباس نے انہیں کہا خدا کی قسم مجھے خدشہ ہے کہ آپ ہی سے حضرت عثمان کا قصاص لیا جائے گا۔
حوالہ : [ البدایہ والنہایہ – جلد ہشتم – صفحہ ٢١۴ ]
▪ جب امام حسین ع کو مسلم ع اور ہانیؓ کی شہادت اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی خبر ملی تو آپ کو یہ بھی بتایا گیا کہ کوفہ میں نہ کوئی آپ کا یار و مدرگار ہے نہ آپ کے شیعہ ہیں۔
حوالہ : [ تاریخ طبری – جلد۴ – حصہ١ – صفحہ ١٨٧ ]
▪ آخر میں ہم ناصبی بہانے کو بھی نقل کرتے چلیں ۔ یہ حضرات شیعہ عالم دین قاضی نور اللہ شوستری کی ایک عبارت کو غلط انداز میں پیش کر کے ثابت کرنا چاھتے ہیں۔ کہ اھل کوفہ خلافتِ شیخین کے ماننے والے نہیں، بلکہ امامی شیعہ تھے اس سلسلے میں وہ جو عبارت پیش کرتے ہیں۔ قاضی نور اللہ شوستری نے مجالس المومنین میں لکھا کہ: “اہل کوفہ کے شیعہ ہونے کیلیئے کسی دلیل کی حاجت نہیں۔ کوفیوں کا سنی ہونا خلافِ اصل ہے۔ جو محتاج دلیل ہے اگرچہ ابو حنیفہ کوفی تھے”۔
¤ جواب: قاضی صاحب کی یہ عبارت کربلا کے زمانے کی نہیں ہے بلکہ ابوحنیفہ کوفی کا ذکر کرکے قاضی صاحب نے وہ وقت بتا دیا کہ جس کا وہ تذکرہ کر رہے ہیں (یعنی قاضی صاحب واقعہ کربلا سن ٦١ ھجری کی بات نہیں کر رہے، بلکہ ابو حنیفہ کوفی کے عروج کے دور کی بات کر رہے ہیں۔ اور ابو حنیفہ تو واقعہ کربلا کے وقت پیدا بھی نہیں ہوا تھا)
¤ ابوحنیفہ کے زمانے کے متعلق بھی یہ قاضی صاحب کی ذاتی رائے ہے لہذا ناصبی حضرات کا یہ عذر اُسوقت تک قابلِ قبول نہیں ہو سکتا۔ جب تک وہ اس کی حمایت میں کوئی تاریخی روایت نہ پیش کریں۔ ہم نے اھل سنت کی تاریخی کتب سے کئی روایات کے حوالے سے ثابت کیا ہے کربلا کے زمانے میں کوفہ میں شیعہ خاصہ یعنی عقیدتی امامی شیعہ کی تعداد مٹھی بھر سے زیادہ نہیں رہ گئی تھی ۔ باقیوں کو زیاد ابن سمعیہ نے اپنی گورنری کے دور میں چن چن کر قتل کر دیا تھا ۔ لہذا نجس ناصبیوں کا قاضی نور اللہ شوستری کے قول واحد کو توڑ مروڑ کر عذر بیانی کرنا قابل قبول نہیں ہو سکتا بلکہ اس بات کی کھلی نشانی ہے کہ بیغیرت ناصبی کیسے عام اھلسنت مسلمانوں کو دھوکا دیتے ہیں