کثیر بن شھاب الحارثی

اس کے بارے میں ابن اثیر الجزری لکھتے ہیں
كَثِير بْن شهاب الحارثي فِي صحبته نظر، عداده فِي الكوفيين، وهو الَّذِي قتل جالينوس الفارسي يَوْم القادسية، وأخذ سلبة، وقيل: قتله زهرة بْن حوية.
روى عَنْهُ: عدي بْن حاتم إن كَانَ محفوظًا.
أسد الغابة في معرفة الصحابة – عز الدين ابن الأثير.
کثیر بن شھاب الحارثی
اس کے صحابی ہونے میں کلام ھے ان کا شمار اہل کوفہ میں ہوتا ھے اس نے قادسیہ میں جالینوس فارسی کو قتل کیا تھا اور اس کا سامان لیا تھا
بعض نے کہا کہ اس نے زہرہ بن حویہ کو قتل کیا تھا اس کا اگر صحابی ہونا محفوظ ہوتو اس سے عدی بن حاتم نے روایت کی ھے لیکن ابن حجر عسقلانی نے اس کی صحابیت پر جو دلیل قائم کی ھے وہ ہم بعد میں بیان کرتے ہیں
پہلے ابن عساکر کا قول نقل کرتے ہیں
ابن عساکر کہتے ہیں کہ بعض نے کہا ھے کہ ان کو شرف صحابیت حاصل ھے
ابن سعد نے طبقات الکبیر میں لکھا ھے کہ اس کا دادا حصین ارتداد میں قتل ہوا تھا
اور اس کے بیٹے نے شھاب نے اپنے دادا کے قاتل کو قتل کر دیا تھا
ابن کلبی کا قول ھے کہ کثیر بن شھاب بہت زیادہ بخیل تھا
یہ معاویہ بن ابی سفیان کی طرف سے ری کا امیر تھا
عجلی کہتے ہیں یہ کوفی تابعی ثقہ ھے بخاری کہتے ہیں اس نے عمر بن الخطاب سے سنا ھے
ابن عساکر نقل کرتے ہیں کہ عمر بن الخطاب نے کثیر بن شھاب کو لکھا اپنے لوگوں کو حکم دیں کہ وہ تازی روٹی پنیر کے ساتھ کھائیں وہ زیادہ دیر تک پیٹ میں رہتی ھے
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ جس روایت سے تقویت ملتی ھے کہ انہیں شرف صحابیت حاصل ھے پہلے گزر چکا ھے کہ وہ صحابہ کے علاوہ کسی کو امیر نہیں بناتے تھے اور عمر بن الخطاب کا انکو خط لکھنا ثابت کرتا ھے وہ امیر تھے
الاصابہ فی تمیز الصحابہ ج 5 ص 213 لابن حجر عسقلانی
کثیر بن شھاب الحارثی کے متعلق بلازری اپنی کتاب فتوح البلدان میں ایک روایت لاۓ ہیں
وحدثني العباس بن هشام الكلبي، عن أبيه، عن عوانة قال: كان كثير بن شهاب بن الحصين بن ذي الغصة الحارثي عثمانيا يقع في علي بن أبي طالب ويثبط الناس عن الحسين، ومات قبيل خروج المختار بن أبي عبيد أو في أول أيامه، وله يقول المختار بن أبي عبيد في سجعه
” أما ورب السحاب شديد العقاب، سرع الحساب منزل الكتاب، لأنبشن قبر كثير بن شهاب، المفترى الكذاب
فرماتے ہیں کہ مجھ سے عباس بن ھشام الکلبی نے اپنے والد کی سند انہوں نے عوانہ کی سند سے بیان کیا کہ عوانہ کہتے ہیں
کثیر بن شھاب بن الحصین بن زوالغاصہ الحارثی عثمانی تھا علی بن ابی طالب کی حمایت کی لیکن لوگوں کو حسین ابن علی بن ابی طالب ؑ کی ( بیعیت سے) روکتا تھا یہ مختار بن ابی عبیدہ الثقفی کے خروج سے قبل فوت ہوا یا اس کی حکومت کے ابتدائ ایام میں
اس کے متعلق مختار بن ابی عبیدہ اپنے سجدے میں کہتا
جہاں تک آسمانوں کے رب کا تعلق ھے تو وہ سخت سزا دینے والا ھے
اس نے اپنی کتاب میں نازل ہونے والے فیصلے کو جلدی دے دیا ھے
تاکہ مفتری اور کذاب کثیر بن شھاب کی قبر کو نکال دیا جاۓ
فتوح البلدان – البلاذري – ج ۲ – الصفحة ٣٧٨
کثیر بن شھاب اھلسنت رجال میں ثقہ ھے
اور تشیع رجال میں اس کی روایات بھی موجود ہیں
مرحوم خوئ لکھتے ہیں
٩٧٢٦ كثير بن شهاب الحارثي: روى عن أمير المؤمنين عليه السلام، وروى عنه الحسن بن الحكم
الجزء الخامس عشر ۱۰۹ النخعي كامل الزيارات الباب ۲۸ في بكاء السماء والأرض على قتل الحسين عليه السلام، الحديث ١٦.
معجم رجال الحدیث جلد 14 رقم 9726
کثیر بن شھاب الحارثی امام علی ؑ سے روایت کرتا ھے جب کہ ان سے الحسن بن الحکم روایت کرتے ہیں ان کی روایات کامل الزیارات باب فی بکاء السماء الارض علی قتل الحسین میں نقل ھے
شیخ عبداللہ البحرانی نے کتاب العوالم الامام حسین ؑ میں کثیر بن شھاب کی روایت نقل کی ھے
جس میں امام حسین ؑ پر گریہ کا اثبات ہوتا ھے
روایت یہ ھے
– ومنه أبي وعلي بن الحسين، عن سعد، عن ابن عيسى، عن محمد البرقي، عن عبد العظيم الحسني، عن الحسن بن الحكم النخعي، عن كثير بن شهاب الحارثي قال: بينا نحن جلوس عند أمير المؤمنين عليه السلام في الرحبة إذ طلع الحسين عليه السلام [عليه] فضحك علي حتى بدت نواجذه، ثم قال: إن الله ذكر قوما
فقال:” فما بكت عليهم السماء والأرض وما كانوا منظرين ” والذي فلق الحبة وبرأ
النسمة ليقتلن هذا، ولتبكين عليه السماء والأرض.
العوالم الامام حسین ؑ ص 458
نتیجہ
شیعہ رجال میں اگر اس کی روایت موجود ھے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ یہ روایت امام علی ؑ کے دور سے ثابت ھے کیونکہ امام علی ؑ 40 ھجری میں شہید کر دئیے گئے تھے
ان کے بعد لوگوں نے دنیا کو اپنا مسکن بنا لیا
اور کربلا 60 ھجری میں پیش آئ
اس۔لیے کثیر بن شھاب الحارثی کا امام حسین ؑ سے تعصب
ثابت ہوتا ھے
تحقیق سید ساجد بخاری