کیا صدیقة الكبري سلام الله عليها ابوبکر سے راضی ہوکر رخصت ہوئی تھیں؟

×نواصب کا اعتراض اور اس کا جواب×
ناضرین فیس بوک پر ہمیں شرح نہج البلاغہ کے حوالے سے حوالا گردش کرتا ہوا نظر آیا جس کا جواب دینا ہم نے ضروری سمجھا۔
نواصب اپنے اکابرین کو بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح وہ بچ جائیں،
لیکن
“سچ کبھی چھپتا نہیں”
ہم پہلے نواصب کا پورا کلام نقل کریں گے اور اس پر پھر اپنا جواب::
نواصب :: سیدہ فاطمہ زہرا فدک کے معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی سے راضی ہوکر گئیں تھیں
شیعہ عالم علامہ کمال الدین میثم بن علی بن میثم البحرانی
الجواب ::
ناضرین کرام
یہ اصل روایت جو کتب میں آئی ہے اس کا مصدر واحد شرح نہج البلاغہ از ابن ابی حدید ہے،
باقی کتب میں نقل در نقل طریقہ کے تحت ان روایات کو ذکر کیا گیا۔
جب ہم شرح نہج البلاغہ از ابن میثم البحرانی کو دیکھتے ہیں تو جس روایت کو نواصب نے نقل کیا ہے
وہ شرح نہج البلاغہ از ابن میثم، جلد ۵ صفحہ ۹۹، ۱۰۰ طبع دار الثقلین بیروت میں موجود ہے
اور جس روایت کو مخالفین نے نقل کیا ہے اس سے پہلے جو مشہور روایت ہے اس میں لکھا ہے کہ جناب زھرا سلام اللہ علیہا غصہ میں گھر آئی اور قسم کھائی کہ ابوبکر کے لئے بددعا کریں گی اور کبھی بات نہیں کریں گی، اور یہی سیدہ سلام اللہ علیها کا رویہ رہا، سیدہ سلام الله عليها نے یہاں تک کہا کہ ابوبکر کو نماز جنازہ میں نہیں بلایا جائے اور ان کو رات میں دفنایا گیا
[یہ پوری عبارت صفحہ 100 تک آتی ہے]
اس کے بعد علامہ بحرانی روایت کو ‘روی’ کے صیغہ سے نقل کرتے ہے چنانچہ ان کے نزدیک بھی صحیح روایت عدم رضائیت ہی کی ہے،
اب اصل روایت شرح نہج البلاغہ جو ابن ابی حدید المعتزلی کی تصنیف ہے
اس کی روایت یوں ہے مع السند
قال أبو بكر : وحدثني محمد بن زكريا قال ، حدثنى أبن عائشة ، قال : حدثنى أبى ، عن عمه قال : لما كلمت فاطمه أبا بكر بكى
حوالہ::
[شرح نہج البلاغہ جلد 16 صفحہ 216 طبع دار الاحیاء الکتب العربیہ]
اس میں واضح طور پر یہ ساری تفصیلات ہیں اور اس روایت کی سند مجموعا عامی (اہلسنت) ہے شیعی نہیں۔ چنانچہ جو واقعہ انہوں نے بیان کیا اس میں واضح طور پر جناب زھرا ع کا دعوی ہبہ موجود ہے اور اس پر امیر المؤمنین ع اور جناب ام ایمان رض کی گواہی کا بیان بھی تو سوال یہ تھا کہ اس روایت کے مفاد کے تحت تو ابوبکر نے ان دونوں کی گواہیوں کو قبول ہی نہ کیا اور سیدہ زھرا ع کے دعوئٰ کو ٹہکرایا تو بتایا جائے یہ بات ابوبکر کے حق میں ہے یا ان کے خلاف۔ علی کل حال یہ روایت سندا اور دلالت دونوں اعتبار سے مخدوش ہے کیونکہ خود یہی ابن ابی حدید کہتے ہے:
والصحيح عندي أنها ماتت وهي واجدة على أبي بكر وعمر
اور میرے نزدیک صحیح بات یہی ہے کہ سیدہ زھرا ع اس حالت میں دنیا سے رخصت ہوئی کہ ابوبکر و عمر سے ناراض تھیں۔
حوالہ: شرح نہج البلاغہ جلد 6 صفحہ 50
ناظرین :::
ابن ابی حدید ایک معتزلی عالم دین تھا جس کے اعتزال میں کوئی شک نہیں اور جو اس کی شرح کا مطالعہ کرے اس پر یہ حقیقت آشکار ہے چنانچہ اس کا حوالہ بہرحال تشیع پر حجت نہیں،
اور مان بھی لیں تو خود اس کی تصریح کے برخلاف اس روایت کے ضعف کی وجہ سے قابل التفات نہیں
اس کے علاوہ یہ بات صحیح السند سے ثابت ہے کہ
جناب صدیقة الكبري سلام الله عليها اس حالت میں دنیا سے رخصت ہوئی کہ ابوبکر و عمر سے ناراض تھیں۔
بخاری کی روایت ملاحظہ فرمائیں::
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، ان فاطمة عليها السلام بنت النبي صلى الله عليه وسلم ارسلت إلى ابي بكر تساله ميراثها من رسول الله صلى الله عليه وسلم مما افاء الله عليه بالمدينة , وفدك وما بقي من خمس خيبر، فقال ابو بكر: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال:” لا نورث ما تركنا صدقة، إنما ياكل آل محمد صلى الله عليه وسلم في هذا المال”، وإني والله لا اغير شيئا من صدقة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن حالها التي كان عليها في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولاعملن فيها بما عمل به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فابى ابو بكر ان يدفع إلى فاطمة منها شيئا، فوجدت فاطمة على ابي بكر في ذلك فهجرته، فلم تكلمه حتى توفيت، وعاشت بعد النبي صلى الله عليه وسلم ستة اشهر، فلما توفيت دفنها زوجها علي ليلا، ولم يؤذن بها ابا بكر وصلى عليها
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ رضی اللہ عنہا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خفا ہو گئیں اور ان سے ترک ملاقات کر لیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی اللہ عنہ نے انہیں رات میں دفن کر دیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔
حوالہ: [صحیح بخاری ص ١٠٤٠ رقم ٤٢٤٠-٤٢٤١]
ناضرین ::
یوں ہمارا جواب مکمل ہوا نواصب چاہے کتنی بھی کوششیں کریں لیکن
نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
خدا وند متعال مخالفین کو ھدایت کاملہ دے آمین
دعاگو: صاحب تحریر
:ہادی نقوی