پاؤں کا مسح

اے ایمان والو! جب نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو تو اپنے چہروں کو اور ہا تھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ؛ اور سر کے بعض حصے کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو۔ (المائدة، 5 : 6)

.

حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ وضو نام ہے دو غسل (یعنی دوبار چہرہ اور کہونی تک بازو د ھونا) اور دو مسح (یعنی دو بار سر اور پاؤں کا مسح کرنے کا) تین بار نہیں۔
(جامع البيان في تفسير القرآن)
.
حضرت ابن حبیبہ نے حضرت عمر بن دینار عکرمہ کی سند سے بیان کیا : کہ وضو نام ہے دو غسل اور دو مسح کرنے کا ۔ ۔ تین بار نہیں (یعنی دو بار چہرہ اور کہونی تک بازو د ھونا اور دو بار سر اور پاؤں کا مسح کرنا)
(المصنف لابن أبي شيبة)
.
حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ وضو نام ہے دو غسل اور دو مسح کرنے کا ۔ (یعنی دو بار چہرہ اور کہونی تک بازو دھونا اور دو بار سر اور پاؤں کا مسح کرنا) تین بار نہیں
(الجامع الحكام القرآن)
.
حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے وضو کو بیان کیا تو آپ نے اپنے پاؤں کا مسح کیا۔ آپ نے فرمایا : کہ قرآن میں مسح ہے اور لوگ غسل کرتے ہیں۔ فرمایا : وضو دو بار دھونے اور دو مسح کرنے کا نام ہے ۔ قتادہ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے دو غسل اور دو مسح فرض کیے ہیں۔
(التفسير والمفسرون)
.
حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ وضو نام ہے دو غسل اور دو مسح کرنے کا۔ (یعنی دو بار چہرہ اور کہونی تک بازو دھونا اور دو بار سر اور پاؤں کا مسح کرنا) تین بار نہیں۔
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري)

*”شیعہ وضو پر اعتراض کا جواب از کتب اہلسنت”*
📒تحریر:محمد ثقلین عباس📒
*اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ اَلَّذِي جَعَلَنَا مِنَ اَلْمُتَمَسِّكِينَ بِوِلاَيَةِ أَمِيرِ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلْأَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ اَلسَّلاَمُ»»*
دین اسلام ایک کامل دین ھے جس کو خداوند متعال نے ھم سب کیلئے پسند فرمایا اور جنابِ رسول خدا خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی میں ہی تمام احکامات بتا کر گئے نیز سب کچھ واضح کر کے گئے کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھی پھر جنابِ رسول خدا ص کے بعد آئمہ اھلبیت علیھم السلام حجت الله قرار پائے اور پھر امت میں اختلافات کی لہر اٹھی جس سے مسلمان میں مختلف نظریات جنم لینا شروع ھو گئے پھر یہ اختلافات بڑھتے گئے اور بالآخر دو مشہور مکتب وجود میں آئے جن میں مکتبِ اھلبیت ع جسے فقہ جعفریہ کا نام دیا گیا اور دوسرے اہلسنت والجماعت جن میں آگے پھر آئمہ اربعہ آ جاتے ھیں اور ان چاروں آئمہ میں کثیر اختلافات ھیں چاھے نماز کا مسئلہ ھو یا وضو کا جبکہ مکتبِ اھلبیت ع یعنی فقہ جعفریہ کے بارہ آئمہ اھلبیت ع میں کوئی ایک اختلاف بھی نہیں ھے لہٰذا مسلمانوں میں موجود ان اختلافات میں سے ایک اختلاف وضو پر بھی ھے سب سے پہلے آیت وضو پیش خدمت ھے:
*یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا قُمۡتُمۡ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغۡسِلُوۡا وُجُوۡہَکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ اِلَی الۡمَرَافِقِ وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ اِلَی الۡکَعۡبَیۡنِ…..*
ترجمہ:”اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لیا کرو نیز اپنے سروں کا اور ٹخنوں تک پاؤں کا مسح کرو…”
*(المائدہ آیت 6)*
اب اس آیت میں ایک نکتہ پر اختلاف رونما ھوا اور مختلف قرائتیں اختیار ھونے لگیں کہ اس آیت میں پاؤں پر مسح کریں یا دھوئیں؟ مکتبِ اھلبیت ع میں اس آیت کی رو سے مسح واجب سمجھا جاتا ھے جبکہ مذاہبِ اربعہ یعنی برادرانِ اسلامی نے اس رو سے مختلف نظریات پیدا کئے اور معتبر تاریخی شواہد سے ثابت ھوتا ھے کہ اس نکتہ پر اختلاف خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان کے دور خلافت میں شروع ھوا اور انہی سے کچھ ایسی روایات ھیں کہ جس میں وہ پہلے پاؤں پر مسح کرتے تھے اور پھر دھونا شروع ھوا اور خلیفہ ثالث خود کہتے ھیں جس کا لب لباب ھے کہ لوگ اختلاف رکھتے ھیں اور ھمیں حدیثیں سناتے ھیں جبکہ میں پاؤں دھونے کا حکم پاتا ھوں لہذٰا اب یہ الگ بحث ھے اس میں ھم نہیں جا رھے ھم بس کچھ روایات بطور ثبوت نقل کریں گے اس کی ضرورت فقط اس لئے ھوئی کہ دوسرے مکتب پر اعتراض نہیں کرنا چاھئے ورنہ فقہ جعفریہ کا وضو قرآن و اھلبیت علیھم السلام سے ثابت ھے لہٰذا ھم چاہتے ھیں اہلسنت کتب سے کچھ روایات نقل کریں جس سے شکوک و شبہات دور ھوں تو اس حوالے کچھ ثبوت پیش خدمت ھیں۔
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر _1* 🔷
سب سے پہلے اہلسنت امام ابنِ حزم اندلسی کا تبصرہ ھمارے سامنے ھے تا کہ مومنین کو اگلے حقائق سمجھنے میں آسانی ھو ، تو امام ابن حزم سورہ المائدہ کی مندرجہ بالا آیت کی وضاحت کرتے ھوئے کہتے ھیں:
ترجمہ:” پاؤں کے مسح کے بارے میں ہم نے جو کہا تھا ، تو اس لئے کہ قرآن میں پاؤں کے مسح کاحکم ھے ارشادِ باری تعالیٰ ھے:
*وَ امۡسَحُوۡا بِرُءُوۡسِکُمۡ وَ اَرۡجُلَکُمۡ… (المائدہ آیت 6)*
*”اور تم مسح کرو اپنے سروں کا اور اپنے پاؤں کا”*
ارجل کے لام کو خواہ فتحہ کے ساتھ پڑھا جائے یا کسرہ کے ساتھ ، یہ ہر حال میں رؤس پر عطف ھے کیونکہ معطوف اور معطوف علیہ کے مابین کوئی نیا قضیہ حائل نہیں ھو سکتا *حضرت ابن عباس سے بھی منقول ھے کہ قرآن مجید میں پاؤں کے مسح کا حکم نازل ہوا ھے یہی وجہ ھے کہ سلف میں سے ایک جماعت پاؤں کے مسح کی قائل ھے مثلاً حضرت علی ع ، ابن عباس ، حسن بصری ، عکرمہ ، شعبی اور ان کے علاوہ دیگر بہت سے حضرات* ، امام طبری کا قول بھی یہی ھے اس سلسلے میں کئ آثار بھی منقول ھیں چنانچہ *ایک اثر بطریق ہمام از اسحاق بن عبد الله از علی بن یحییٰ از پد ر خود بیان کیا ھے کہ حضرت رفاعہ بن رافع سے روایت ھے کہ انھوں نے آنحضرت صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ھوئے سنا کہ اس وقت تک تم میں سے کسی کی نماز درست نہیں جب تک کہ وہ اس طرح اچھے طریقے سے وضو نہ کر لے جیسا کہ الله تعالیٰ نے حکم دیا ھے پھر اپنے چہرے کو دھوئے ، پھر ہاتھوں کو کہنیوں تک دھوئے اور پھر سر کا اور پاؤں کا ٹخنوں تک مسح کرے….*”
*[المحلیٰ / امام ابن حزم اندلسی / جلد 1 / غسل ، وضو اور مسح کے احکام / الصفحہ 463_462]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 2_* 🔷
*حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ حُمْرَانَ بْنِ أَبَانَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ دَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَظَهْرِ قَدَمَيْهِ ثُمَّ ضَحِكَ فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ أَلَا تَسْأَلُونِي عَمَّا أَضْحَكَنِي فَقَالُوا مِمَّ ضَحِكْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِمَاءٍ قَرِيبًا مِنْ هَذِهِ الْبُقْعَةِ فَتَوَضَّأَ كَمَا تَوَضَّأْتُ ثُمَّ ضَحِكَ فَقَالَ أَلَا تَسْأَلُونِي مَا أَضْحَكَنِي فَقَالُوا مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا دَعَا بِوَضُوءٍ فَغَسَلَ وَجْهَهُ حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ كُلَّ خَطِيئَةٍ أَصَابَهَا بِوَجْهِهِ فَإِذَا غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ كَانَ كَذَلِكَ وَإِنْ مَسَحَ بِرَأْسِهِ كَانَ كَذَلِكَ وَإِذَا طَهَّرَ قَدَمَيْهِ كَانَ كَذَلِكَ…..*
ترجمہ:”حمران کہتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رض نے وضو کے لئے پانی منگوایا ، چناچہ کلی کی ، ناک میں پانی ڈالا اور تین مرتبہ چہرہ دھویا اور دونوں بازوؤں کو تین تین مرتبہ دھویا ، *سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں کے اوپر والے حصے پر بھی مسح فرمایا* اور ہنس پڑے ، پھر اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ لوگوں نے کہا امیرالمومنین ! آپ ہی بتائیے کہ آپ کیوں ہنسے ؟ فرمایا کہ میں نے نبی ص کو دیکھا کہ آپ نے بھی اسی طرح پانی منگوایا اور اس جگہ کے قریب بیٹھ کر اسی طرح وضو کیا جیسے میں نے کیا، پھر نبی ص بھی ہنس پڑے اور اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے ؟ صحابہ کرام رض نے پوچھا یا رسول الله ! آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ فرمایا انسان جب وضو کا پانی منگوائے اور چہرہ دھوئے تو الله تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ معاف فرما دیتا ھے جو چہرے سے ہوتے ہیں ، جب بازو دھوتا ھے تب بھی ایسا ہی ہوتا ھے ، جب سر کا مسح کرتا ھے تب بھی ایسا ہی ہوتا ھے اور جب پاؤں کو پاک کرتا ھے تب بھی ایسا ہی ہوتا ھے”
*[مسند امام احمد / جلد 1 / باب: حضرت عثمان رضی الله عنہ کی مرویات / حدیث نمبر: 391 / 415]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 3_* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ‏:رَأَيْتُ عِكْرِمَةَ يَمْسَحُ عَلَى رِجْلَيْهِ، وَكَانَ يَقُولُ بِهِ‏….*
ترجمہ:”حضرت ایوب کہتے ھیں کہ میں نے حضرت عکرمہ کو پاؤں کا مسح کرتے ھوئے دیکھا ھے اور وہ اسی کے قائل تھے”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 178 ]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 4_* 🔷
*حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَحْيَى بْنِ خَلَّادٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمِّهِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ ، أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:” إِنَّهَا لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ، حَتَّى يُسْبِغَ الْوُضُوءَ كَمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى، يَغْسِلُ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ، وَيَمْسَحُ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ…..*
رفاعہ بن رافع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کی کوئی نماز پوری نہیں ہوتی جب تک کہ کامل وضو نہ کرے جیسے الله تعالیٰ نے اسے حکم دیا ھے کہ اپنے چہرے کو اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوئے اور مسح کرے دونوں پیروں کا ٹخنوں سمیت اور اپنے سر کا”
*[سنن ابن ماجه / كتاب الطهارة وسننها / حدیث: 460]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 5_* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ؛ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ إنَّمَا هُوَ الْمَسْحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، وَكَانَ يَقُولُ‏:‏ يَمْسَحُ ظَاهِرَهُمَا وَبَاطِنَهُمَا‏….*
ترجمہ:”حضرت یونس کہتے ھیں کہ حضرت حسن بصری کہا کرتے تھے کہ پاؤں پر مسح کیا جا سکتا ھے اور مسح پاؤں کے باطنی اور ظاہری دونوں حصوں پر کیا جائے گا”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 179 ]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 6_* 🔷
*حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ‏:‏حدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ حُمْرَانَ، قَالَ‏:دَعَا عُثْمَانَ بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ ثُمَّ ضَحِكَ، فَقَالَ‏:أَلاَ تَسْأَلُونِي مِمَّا أَضْحَكُ‏؟‏ قَالُوا‏:يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا أَضْحَكَك‏؟‏ قَالَ‏:رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم تَوَضَّأَ كَمَا تَوَضَّأْتُ فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلاَثًا وَيَدَيْهِ ثَلاَثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَظَهْرِ قَدَمَيْهِ‏…..*
ترجمہ:”حضرت حمران رضی الله عنہ کہتے ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان بن عفان نے پانی منگوایا اور وضو کیا پھر آپ مسکرائے ، پھر فرمایا تم مجھ سے پوچھو گے نہیں کہ میں کیوں مسکرایا ھوں؟ لوگوں نے عرض کی کہ اے امیر المومنین آپ کیوں مسکرائے؟ فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا کہ آپ نے ایسے ہی وضو فرمایا تھا جیسے میں نے وضو کیا ھے ، آپ نے تین مرتبہ کلی کی ، تین مرتبہ ناک صاف کیا ، تین مرتبہ چہرہ دھویا ، تین مرتبہ بازو دھوئے اور *پھر سر اور پاؤں کے ظاہری حصہ کا مسح فرمایا*”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في الوضوء كم هو مرة / حدیث 56]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 7_* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ‏:غَسْلَتَانِ وَمَسْحَتَانِ‏…..*
ترجمہ:”حضرت عکرمہ فرماتے ھیں کہ دونوں پاؤں دھوئے بھی جا سکتے ھیں اور ان پر مسح بھی کیا جا سکتا ھے”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 180]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 8_* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ الْأَشْجَعِيِّ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ قَالَ أَتَى عُثْمَانُ الْمَقَاعِدَ فَدَعَا بِوَضُوءٍ فَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ مَسَحَ بِرَأْسِهِ وَرِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا يَتَوَضَّأُ يَا هَؤُلَاءِ أَكَذَاكَ قَالُوا نَعَمْ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهُ…..*
ترجمہ:”بسر بن سعید کہتے ھیں کہ حضرت عثمان رض بنچوں کے پاس آکر بیٹھ گئے ، وضو کا پانی منگوایا ، کلی کی ، ناک میں پانی ڈالا ، پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا اور تین تین مرتبہ ہاتھ دھوئے ، *پھر سر اور پاؤں کا تین تین مرتبہ مسح کیا* پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ھے اور چند صحابہ کرام رضی الله عنہ جو وہاں موجود تھے ، ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ھے ؟ انہوں نے اس کی تصدیق کی”
*[مسند امام احمد / جلد 1 / باب: حضرت عثمان رضی الله عنہ کی مرویات / حدیث نمبر: 456 / ]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 9_* 🔷
*عن حمران قال دعا عثمان بماء فتوضاً ثم ضحک فقال الاتسئلون مم اضحک؟ قالوا یا امیر المؤمنین ما اضحک؟ قال: رأیت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم توضأکما توضأتُ فمضمض و استنشق وغسل وجہہ ثلاثا و یدیہ ثلاثاً و مسح برأسہ وظہر قدمیہ…..*
“حمران سے روایت ھے کہ عثمان بن عفان نے پانی مانگا ، پھر وضو کیا پھر ہنس دیئے کہا: کیا تم پوچھتے نہیں ہو کہ میں کس چیز سے ہنس رہا ہوں؟ لوگوں نے کہا: اے امیرالمؤمنین کس چیز نے ہنسایا؟ کہا: میں نے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ایسا ہی وضو کر رھے تھے جیسے میں نے وضو کیا منہ میں پانی ڈالا ، ناک میں پانی ڈالا ، چہرے کو تین مرتبہ دھویا ، دونوں ہاتھوں کو تین مرتبہ دھویا اور *سر کا اور دونوں پاؤں کی پشت کا مسح کیا*”
*[کنزالعمال / علی متقی ہندی / روایت نمبر 26863]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 10_* 🔷
*عن حمران قال: رأیت عثمان دعا بماء فغسل کفیہ ثلاثاً ومضمض واستنشق و غسل وجہہ ثلاثا وذراعیہ ثلاثا ومسح برأسہ و ظہر قدیہ…..*
حمران سے روایت ھے کہ عثمان بن عفان کو دیکھا کہ پانی طلب کر رہے ہیں پھر اپنی دونوں ہتھیلیاں دھو لیں تین بار ، پھر منہ میں پانی ڈالا اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ دھویا تین بار اور دونوں ہاتھ دھوئے تین بار پھر *سر کا اور دونوں پاؤں کی پشت کا مسح کیا*”
*[کنزالعمال / علی متقی ہندی / روایت نمبر 26886]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 11_* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ‏:إنَّمَا هُوَ الْمَسْحُ عَلَى الْقَدَمَيْنِ، أَلاَ تَرَى أَنَّ مَا كَانَ عَلَيْهِ الْغَسْلُ جُعِلَ عَلَيْهِ التَّيَمُّمُ، وَمَا كَانَ عَلَيْهِ الْمَسْحُ أُهْمِلَ، فَلَمْ يُجْعَلْ عَلَيْهِ التَّيَمُّمُ‏…..*
ترجمہ:”حضرت شعبی فرماتے ھیں کہ پاؤں پر مسح کرنا جائز ھے کیا تم نہیں دیکھتے کہ جن اعضاء کو وضو میں دھونا فرض تھا انہیں تیمم میں باقی رکھا گیا اور جن اعضاء کا مسح تھا تیمم میں انہیں چھوڑ دیا گیا”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 181]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 12_* 🔷
*حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ الرُّبَيِّعِ ، قَالَتْ: أَتَانِي ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ تَعْنِي حَدِيثَهَا الَّذِي ذَكَرَتْ: أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ” تَوَضَّأَ وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ”، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ النَّاسَ أَبَوْا إِلَّا الْغَسْلَ، وَلَا أَجِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا الْمَسْحَ…..*
“ربیع رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس ابن عباس رضی الله عنہما آئے ، اور انہوں نے مجھ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا ، اس سے وہ اپنی وہ حدیث مراد لے رہی تھیں جس میں انہوں نے ذکر کیا ھے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وضو کیا ، اور اپنے دونوں پیر دھوئے، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا کہ لوگ پاؤں کے دھونے ہی پر مصر ہیں جب کہ میں قرآن کریم میں پاؤں کے صرف مسح کا حکم پاتا ہوں”
*[سنن ابن ماجه / كتاب الطهارة وسننها / حدیث: 458]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 13_* 🔷
*حَدَّثَنَا إسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ‏:كَانَ أَنَسٌ إذَا مَسَحَ عَلَى قَدَمَيْهِ بَلَّهُمَا‏…..*
ترجمہ:”حضرت حمید کہتے ھیں کہ حضرت انس رضی الله عنہ جب پاؤں کا مسح کرتے تو انہیں تر کر لیا کرتے تھے”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 182]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 14_* 🔷
*حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ خَيْرٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ‏:لَوْ كَانَ الدِّينُ بِرَأْيٍ كَانَ بَاطِنُ الْقَدَمَيْنِ أَحَقَّ بِالْمَسْحِ مِنْ ظَاهِرِهِمَا، وَلَكِنْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم مَسَحَ ظَاهِرَهُمَا‏…..*
ترجمہ:”حضرت علی ع فرماتے ھیں کہ اگر دین میں عقل کا عمل دخل ھوتا تو پاؤں کے ظاہری حصہ کی بجائے اس کے اندرونی حصہ پر مسح کیا جاتا جبکہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو پاؤں کے ظاہری حصہ پر مسح کرتے ھوئے دیکھا ھے”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 183]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 15_* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ زُبَيْدٍ الْيَامِيِّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ‏:نَزَلَ جِبْرِيلُ بِالْمَسْحِ عَلَى الْقَدَمَيْنِ‏…..*
ترجمہ:”حضرت شعبی رح کہتے ھیں کہ حضرت جبرائیل ع پاؤں پر مسح کرنے کا حکم لائے ھیں”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 184]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 16_* 🔷
*حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إسْمَاعِيلَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ‏:نَزَلَ جِبْرِِيلُ بِالْمَسْحِ‏….*
ترجمہ:”حضرت شعبی رح کہتے ھیں کہ جبرئیل علیہ السلام پاؤں پر مسح کرنے کا حکم لائے ھیں”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: في المسح على القدمين / حدیث 185]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر _17* 🔷
*حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنِ الرُّبَيِّعِ ابْنَةِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ، قَالَتْ‏:أَتَانِي ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَأَلَنِي عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، تَعْنِي حَدِيثَهَا الَّذِي ذَكَرَتْ، أَنَّهَا رَأَتِ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيه وسَلَّم تَوَضَّأَ، وَأَنَّهُ غَسَلَ رِجْلَيْهِ‏؟‏ قَالَتْ‏:فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ‏:أَبَى النَّاسُ إِلاَّ الْغَسْلَ، وَلاَ أَجِدُ فِي كِتَابِ اللهِ إِلاَّ الْمَسْحَ‏…..*
ترجمہ:”حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی الله عنہ کہتی ھیں کہ ایک مرتبہ حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ میرے پاس تشریف لائے اور مجھ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا کہ میں نے نبی کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو وضو کے دوران پاؤں دھوتے ھوئے دیکھا ھے؟؟ پھر فرمانے لگے کہ لوگ پاؤں دھونے کے قائل ھیں جبکہ کتاب الله میں مجھے مسح کا ذکر ملتا ھے”
*[المصنف ابن ابی شیبہ / باب: من كان يقول‏‏ اغسل قدميك / حدیث 199]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 18_* 🔷
*عن عباد ابن تمیم قال النبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم مسح علی القدمین و ان عروۃ کان یفعل ذلک…..*
“حضرت عباد ابن تمیم رضی الله عنہ کہتے ھیں کہ نبی صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور دونوں پاؤں پر مسح کیا اور عروہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے”
*[امام شوکانی ، نیل الاوطار ، جلد 1 ، صفحہ 210 / شرح معانی الآثار ، جلد 1 ، صفحہ 35 / مسند احمد بن حنبل ، حدیث 16568 _ إسناده صحیح]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 19_* 🔷
“حجاج نے اہواز میں خطبہ دیا اور لوگوں کو پاؤں دھونے کا حکم دیا تو انس بن مالک نے کہا:
*صدق اﷲ و کذب الحجاج قال اﷲ تعالی و امسحوا برؤسکم و ارجلکم…..*
الله تعالیٰ نے سچ فرمایا اور حجاج نے جھوٹ بولا ھے ، الله تعالیٰ فرماتا ھے: اپنے سروں اور پاؤں کا مسح کرو”
*[تفسیرِ طبری ، جلد 8 ، صفحہ 195 ، تفسیر سورہ المائدہ آیت 6 / تفسیر درالمنثور ، جلد 2 ، الصفحہ 719 / تفسیرِ ثعلبی ، جلد 11 ، صفحہ 199_198]*
________________________________________________
🔷 *ثبوت نمبر 20_* 🔷
حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہ فرماتے ھیں:
*نزل القرآن بغسلین و مسحین…*
“قرآن میں دو دھونے اور دو مسح کا حکم نازل ھوا ھے”
*[تفسیرِ درالمنثور ، جلد 2 ، صفحہ 718 ، تفسیر سورہ المائدہ آیت 6]*
اس کے علاوہ حضرت قتادہ رضی الله عنہ سے بھی ایسے روایت ھے کہ “الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسح فرض قرار دیا ھے”
*[تفسیرِ طبری ، جلد 8 ، صفحہ 197 / تفسیرِ ثعلبی ، الصفحہ 200 ، تفسیر درالمنثور ، جلد 2 ، صفحہ 719]*
اس کے علاوہ مولائے متقیان امیر المومنین علی ابنِ ابی طالب ع سے بھی مسح کرنے کی روایت ھے اور متعدد ثبوت ھیں جنہیں نقل کرنا مشکل ھے۔
________________________________________________
قارئین محترم!
ھم نے کچھ حقائق بطور ثبوت پیش کئے ھیں جس سے ثابت ھوتا ھے کہ قرآن مجید میں مسح کا حکم نازل ھوا کیونکہ آیت واضح ھے لہذٰا حدیثِ ثقلین کی رو سے بھی اس کی تائید ھوتی ھے کیونکہ جب آئمہ اربعہ کا بھی وضو کی ایک ایک ترتیب میں اختلاف واقع ھو جاتا ھے تو ھمیں اھلبیت علیھم السلام سے ہی رجوع کرنا پڑے گا اور جلیل القدر صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ اجمعین کے نظریات سے بھی واضح ھے کہ قرآن مجید میں مسح کا حکم موجود ھے لہٰذا اس حوالے سے کسی کی ذاتی آراء کو اہمیت نہیں دی جا سکتی ھے اور اس سے بڑی توہینِ رسالت اور کیا ھو سکتی ھے جو کہتے ھیں کہ قرآن مجید میں مسح کا حکم نازل ھوا جبکہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے معاذ الله پاؤں دھونے کا حکم دیا ، کیا عقل بھی ان روایات کو تسلیم کرتی ھے جو قرآن مجید کے خلاف گھڑی گئی ھیں باقی ہر کسی نے اپنا جواب خود دینا ھے ھم فقط دعوت فکر دے سکتے ھیں اور ھمیں فخر ھے کہ پروردگارِ عالم نے جنابِ رسول خدا ص کے بعد ایسے رہبر و آئمہ عطا کئے جن میں پہلے سے لے کر بارھویں تک کوئی اختلاف نہیں ھے لہٰذا ھمیں ہر حال میں انہی کی پیروی کرنی چاھئے کیونکہ ان کی اطاعت درحقیقت الله تبارک و تعالیٰ اور رسول الله ص کی اطاعت ھے۔