اکثر جب ہم اہل سنت خصوصاً جماعت اسلامی یا انجینر محمد علی مرزا کے مقلدین سے خلافت پر بحث کرتے ہیں تو وہ اعتراض کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ تو ملوکیت ختم کرنے آئے تھے۔ جبکہ انکے اس دعوے کی تردید خود قرآن و سنت نبی ﷺ میں ملتی ہے۔
چناچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
.
أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَىٰ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۖ فَقَدْ آتَيْنَا آلَ إِبْرَاهِيمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَآتَيْنَاهُم مُّلْكًا عَظِيمًا ﴿٥٤﴾
پھر کیا یہ دوسروں سے اس لیے حسد کرتے ہیں کہ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا؟ اگر یہ بات ہے تو انہیں معلوم ہو کہ ہم نے تو ابراہیمؑ کی اولاد کو کتاب اور حکمت عطا کی اور ملک عظیم بخش دیا (ترجمہ : مولانا مودودی)۔ [سورۃ النساء : آیت نمبر ۵۴].
.
قرآن کی اس آیت میں اللہ صاف طور پر فرما رہا ہے کہ اس نے اولاد ابراھیم (جن میں رسول اللہ ﷺ اور اسکے اہل بیتؑ شامل ہے) کو عظیم حکومت دی لیکن باقی لوگ ان سے حسد کرتے ہیں۔
.
اسی طرح اہل سنت کے یہاں حدیث کی پہلی کتاب صحیفہ ھمام بن منبہ (المتوفی ۱۰۱ ھ) [اسکا مولف ابوہریرہ کا شاگرد تھا] نے اپنی کتاب میں اس حدیث حدیث لائی ہے :
.
وقال رسول الله – صلى الله عليه وسلم -: الناس تبع لقريش في هذا الشأن، – أراه يعنى الامارة – مسلمهم تبع لمسلمهم، وكافرهم تبع لكافرهم
(ابوہریرہ روایت کرتے ہیں ) اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس دین کے معاملے میں تمام لوگ قریش کے تابع ہیں، میرے خیال میں یہاں ” امارت (حکومت) ” مراد ہے۔ عام مسلمان قریشی مسلمانوں اور عام کافر قریشی کافروں کے تابع ہیں۔
.
کتاب کے محقق ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اس روایت کے بارے میں یوں لکھا :
اسکی سند صحیح ہے۔ یہ روایت مسند احمد بن حنبل، مصنف عبدالرزاق، صحیح مسلم، شعیب الایمان للبہیقی اور شرح السنۃ للبغوی میں بھی موجود ہے۔
.

.
لہذا ثابت ہوا کہ خود اسلام میں خاندانی ملوکیت کی نفی نہیں آئی ہے لہذا معلوم نہیں آج کے جدید مفکرین نے یہ فہم کہاں سے لایا ہے کہ اسلام ملوکیت کو ختم کرنے آیا تھا۔
.


