نہج البلاغہ کے خطبہ ۱٦۴ میں کچھ ایسے الفاظ آتے ہیں کہ جن سے نواصب اکثر استدلال قائم کرتے ہیں
الفاظ کچھ یوں ہیں کہ
وَوَاللهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لَكَ! مَا أَعْرِفُ شَيْئاً تَجْهَلُهُ، وَلاَ أَدُلُّكَ عَلَى أَمْر لاَ تَعْرِفُهُ، إِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ،
خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ تم سے کیا کہوں! میں ایسا کچھ نہیں جانتا کہ جس سے تم جاہل ہو، اور نہ ہی کسی ایسی چیز کی نشاندہی کر سکوں کہ جس کی تم معرفت نہ رکھتے ہو۔ تمہیں وہ تمام باتیں معلوم ہیں کہ جو مجھے معلوم ہیں
.
اس بات سے نواصب یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ علم میں امام علی نے عثمان کو اپنے برابر مانا
.
اس کے علاوہ یہ آتا ہے کہ
وَقَدْ رَأَيْتَ كَمَا رَأَيْنَا، وَسَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا، وَصَحِبْتَ رَسُولَ الله -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه- كَمَا صَحِبْنَا. وَمَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ وَلاَ ابْنُ الْخَطَّابِ بِأَوْلَى بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَأَنْتَ أَقْرَبُ إِلَى رَسُولِ اللهِ -صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِه وَسَلَّمِ- وَشِيجَةَ رَحِمٍ مِنْهُمَا، وَقَدْ نِلْتَ مَنْ صَهْرِهِ مَا لَمْ يَنَالاَ.
تم نے وہ سب دیکھا جو ہم نے دیکھا اور وہ سنا جو ہم نے سنا۔ اور رسول اللہ کی اتنی صحبت تم کو بھی حاصل ہے کہ جیسے ہم نے حاصل کی۔ ابو بکر و عمر تم سے زیادہ اولی نہ تھے حق پر عمل کرنے میں، اور تم زیادہ قریب تھے رسول اللہ کے اپنی رشتے داری کے باعث اور تمھیں وہ دامادی کا شرف بھی حاصل ہے کہ جو ان کو حاصل نہ تھا
مصادر نہج البلاغہ و اسانیدہ، سید عبد الزہرہ الحسینی،
.
جلد ۲، صفحہ ۳۸۷؛ کے مطابق اس روایت کے جو مصادر ہیں،
.
ان میں شیعہ مصدر میں شیخ مفید کی الجمل کے صفحہ ۱۰۰ کا ذکر کیا گیا ہے،
اور اس میں یہ کہا گیا ہے کہ اس میں سند و روایت مذکور ہے
.
اور دو راوی ہیں جو مزکورہ روایت کرتے ہیں


قال ذكر ابن دأب قال لما عاب الناس على عثمان ما عابوا كلموا عليا فيه فدخل عليه وقال إن الناس ورائي قد كلموني فيك فوالله ما أدري ما أقول لك وما أعرف شيئا تجهله ولا أدلك على أمر لا تعرفه إنك لتعلم ما نعلم ما سبقناك إلى شئ فنخبرك عنه ولا خلونا بشئ فنبلغكه وقد رأيت كما رأينا وسمعت كما سمعنا وصبحت رسول الله صلى الله عليه وآله كما صحبنا وما ابن أبي قحافة ولا ابن أبي الخطاب بأولى بشئ من عمل الخير منك وأنت أقرب إلى رسول الله وقد نلت من صهره ما لا ينالا

پہلی بات تو یہ ھے کہ
یاد رہے کہ مدائنی بھی اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں اور مجہول راوی ہیں اور علی بن صالح ضعیف ہیں۔
مشہور مرجع،
آغآ صادق روحانی سے جب اس سند کے متعلق سوال ہوا،
تو انہوں نے فرمایا کہ
یہ سند صحیح نہیں،
اور
انہوں نے مدائنی کو مجہول،
جبکہ
علی بن صالح کو ضعیف قرار دیا۔۔ سکین آخر پر مزکور ہے۔
چونکہ سنی علمی یتیم ہوتے ہیں جہاں کوئی چیز نظر آئے پاگل ہو جاتے ہیں کیا حوالہ ڈھونڈ لیا ۔
عقل سے پیدل لوگ غور سے نہیں پڑھتے ۔
جناب صاحب یہاں دوسری بات زکر کرتا چلوں کہ اگر
بالفرض
اس روایت کو مان بھی لیا جائے تو اس میں لفظ *من* استعمال ہوا ہے جوکہ صیغہ تبعیض ہے یعنی یہاں
ترجمہ یوں ہوگا کہ
*تو نے (عثمان) نے دامادی میں سے تھوڑی سی نسبت پائی*
جناب صاحب چونکہ وہ رسول ص کی حقیقی بیٹیاں نہ تھی پالکی تھیں لہذا اس لیے *من* استعمال کیا ہے جسکا مطلب ہے تھوڑی سے دامادی پائی۔۔
جب بیٹی حقیقی نہیں تو داماد بھی حقیقی نہیں
پس فضیلت ختم۔
*الزامی جواب*
میرے پاس سنی مذہب کی کتاب
*صحیح مسلم*
موجود ہے
یہاں پر امام علی ع کے لیے صرف لفظ *صھر* ہے *من* موجود نہیں ہے۔
یعنی امام علی ع نے مکمل دامادی پائی۔
لہذا سنیوں کا اعتراض باطل ہوا
*مطالبہ*
چیلنج ہے قیامت تک جناب عثمان کے ساتھ *من* کے بغیر *صھر* دیکھائیں۔۔۔
آجر پر پہلی بات کو دہرا کو مکمل کرنا چاھونگا
کہ
سند کے اعتبار سے بھی روایت نہایت کمزور ھے
اور
سنی راویوں سے روایت وارد ہوئی ھے جو ہمارے ہاں حجت نہیں رکھتے ہیں اور مجہول ثابت ہیں۔
اور استدلال کے قابل ہی نہیں رھے ..
مشہور مرجع،
آغا صادق روحانی سے جب اس سند کے متعلق سوال استفتاء کی صورت میں ہوا،
تو
انہوں نے فرمایا کہ
یہ سند صحیح نہیں، اور انہوں نے مدائنی کو مجہول، جبکہ علی بن صالح کو ضعیف قرار دیا…
استفتاء کا سکین بھی موجود ھے پوسٹ مین ملاحظہ ہو۔
تحریر میں مذکورتمام دعووں کےسکین ملاحظہ
فرمائیں




