نہج البلاغہ کی ایک عبارت پیش کی
جو خطبہ نمبر 214 ص 409
فَإِنِّی لَسْتُ فِی نَفْسِی بِفَوْقِ أَنْ أُخْطِئَ وَ لَا آمَنُ ذَلِکَ مِنْ فِعْلِی…
مفہومی ترجمہ : کہ گویا مولا علی علیہ السلام یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ میں اپنے نفس کو خطاء سے بالاتر تصور نہیں کرتا اور میں اپنے افعال کے اندر بھی اس خطاء سے اپنے آپکو مبرہ و منزہ نہیں سمجھتا ہوں.


یہاں تک عبارت پیش کرکے استدلال کرنے والا ناصبی کہتا ہے کہ حضرت علی ع نے خود کہہ دیا ہے کہ میں خطاء سے پاک نہیں ہوں یعنی اس طرح کہہ کر مولا علی ع کا معصوم نہ ہونا ثابت کررہا ہے.
اس کا بیان کیا ہوا استدلال لاتَقْرَبُوا الصَّلَاةَ کی طرح ہے، اس کلمہ کفر کی طرح ہے کہ جس میں لا اله کا اقرار تو ہو لیکن اِلّا الله کہہ کر اللہ کی وحدانیت کا اقرار نہ کیا جائے.
اب ہم آپکو دیکھاتے ہیں کہ اسی جملے کے آگے والا جملہ جس کو اس ناصبی نے نہیں پڑھا وہ جملہ کیا ہے. اور یہی جملہ اس جلالی کے استدلال کو باطل کرتا ہے.وہ جملہ یہ ہے…

مفہومی ترجمہ : مگر یہ کہ اللہ خود مجھے بچا لے میرے نفس کو محفوظ رکھے کیونکہ وہ اللہ میرے نفس پر صاحب اختیار ہے..
حقیقت میں آپکی پیش کردہ عبارت عصمت کو رد نہیں بلکہ عصمت کی دلیل بن جاتی ہے.
.

جب قرآن کو دیکھتے ہیں تو سورہ یوسف کی آیت نمبر 53 میں حضرت یوسف کا ارشاد ملتا ہے.
وَ مَاۤ اُبَرِّیٴُ نَفۡسِیۡ ۚ اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیۡ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ.
ترجمہ :۔ اور میں اپنے نفس کی صفائی پیش نہیں کرتا، کیونکہ (انسانی) نفس تو برائی پر اکساتا ہے مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم کرے،بیشک میرا پروردگار بڑا بخشنے، رحم کرنے والا ہے.

اس آیت کریمہ میں وہی انداز وہی طریقہ، یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے نفس کے حوالے سے کوئی صفائی پیش نہیں کرتا مگر یہ کہ میرا پروردگار رحم فرمائے یعنی اگر وہ چاہے تو مجھے اس گناہ سے بچا سکتا ہے.
تو مولا علی علیہ السلام بھی تو یہی فرما رہے ہیں کہ میں اپنے نفس کے حوالے سے یہ نہیں کہ میں خطاء سے بالاتر ہوں امکان بیان کیا ہے. اور ساتھ ہی وضاحت بھی کر دی کہ مگر یہ ہے کہ میرے نفس کو اگر اللہ بچانا چاہے اور وہ ذات تو یے ہی بچانے والی صاحب اختیار ہے.
نتیجہ : اگر یہ آیت حضرت یوسف علیہ السلام کی عصمت کو داغ دار نہیں کرتی، حضرت یوسف یہ جملہ کہہ کر معصوم رہ سکتے ہیں تو حضرت علی ع بھی یہ فقرے کہہ کر معصوم رہ سکتے ہیں.
.
پتہ نہیں کہا پڑھتے رہے ہو جاھل کے جاھل ہی ہو. اتنی بھی تمیز نہیں ہے تجھے کہ جب دعویٰ وقوع کا ہو تو دلیل امکان کی نہیں دی جاتی پہلے جناب سیدہ زہرا سلام اللہ علیہا پر بھی یہی بکواس کی اور اب مولا علی ع پر بھی یہی…. یاد رکھو امکان کو وقوع پر دلیل نہیں بنا سکتے…
.
(اب آتے ہیں اسکی جہالت کی طرف اور اسکی جاھلیت کا پردہ چاک کرتے ہیں)
اس بندے کو اہل تشیع کے نظریات کا بھی پتہ نہیں ہے. نہج البلاغہ کو ہاتھ میں اٹھا کر کہتا ہے کہ یہ میرا دعویٰ نہیں کہ یہ حضرت علی ع کی کتاب ہے بلکہ روافض کا دعویٰ ہے کہ یہ سو فیصد معتبر ہے. تم نے سو فیصد جھوٹ بولا ہے. تم کتاب کا انتساب مولا علی ع کی طرف دے رہے ہو مجھے تاریخ تشیع کے اندر ایک عالم ایک فقیہ ومحقق دیکھا دو جس نے یہ لکھا ہو کہ نہج البلاغہ حضرت علی ع کی کتاب ہے.
بلکہ یہ چوتھی صدی ھجری کی ایک برجستہ شخصیت السید شرف رضی رح کے جمع کردہ وہ خطبات ہیں، مکتوبات اور کلمات قصار ہیں جو انہوں نے بلاغت کے خاص نہج کو سامنے رکھتے ہوئے جمع کئیے تھے.
نتیجہ : اب یہ عالم السید شریف رضی رح کی جمع کی گئی کتاب کو حضرت علی ع کی کتاب کہنا کیا اس سے بھی بڑی کوئی جہالت ہو سکتی ہے. کتاب کا انتساب صاحب کتاب کی طرف کیا جاتا یے. نہ کہ کسی اور کی طرف…
دوسری جہالت: کہتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک یہ سوفیصد معتبر ہے آپکو یہ بھی بتادو کہ شیعوں کے نزدیک سوائے قرآن کے کوئی کتاب بھی اول تا آخر معتبر نہیں ہے. اہل تشیع میں کتاب میں موجود روایات کی اسناد و متن سب کو دیکھا جاتا ہے تب جاکر اس روایت پر کوئی حکم لگایا جاتا ہے ….
.
اب آتے ہیں اس نہج البلاغہ کے خطبے کی طرف کہ اس خطبے کو السید شرف رضی رح نے کہا سے لیا ہے اور پھر اس خطبے کی سند کیا ہے کون کون سے راوی ہیں…
خطبے کا مصدر اصلی : شیخ محمد بن یعقوب الکلینی کی کتاب الکافی کی جلد نمبر8 جس کو روضة الکافی کے نام سے جانا جاتا ہے. وہ اس کا مصدر اصلی ہے. جہاں حدیث نمبر 550 کے تحت اسی خطبے کو درج کیا ہے.



تو اب ہم بحث کریں گے کہ اس خطبے کا مصدر اصلی کیا حیثیت رکھتا ہے.
اس کی شرح کرتے ہوئے کتاب مراۃ العقول جلد 26 ص 517 میں علامہ باقر مجلسی رح نے اسی حدیث نمبر 550 کو درج کرتے ہوئے یہ جملہ لکھا ہے کہ : یہ روایت ضعیف ہے، اس کی سند میں موجود عبداللہ ابن حارث مجہول راوی ہے. (سکین پیج نیچے موجود ہے)


اس کے علاوہ المفيد من معجم رجال الحديث میں محمد الجواھری نے ص 329 میں لکھا ہے کہ عبد اللہ بن حارث مجھول ہے. (سکین پیج نیچے موجود ہے)


نتیجه: یہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شیعہ کے نزدیک بھی اس کا مصدر اصلی یعنی روضة الکافی کی روایت ضعیف ہے. تو میں آپکو یہ کہو گا کہ کیا آپکو کسی نے نہیں سکھایا کہ مدمقابل کو دلیل اس کے مسلّمات میں سے دی جاتی ہے. آپکو تو اس قاعدے سے بھی واقفیت نہیں، الحجة للخصم من مسلماته، کہ مدمقابل کو دلیل اس کے مسلّمات سے دی جاتی ہے اور آپ کا پیش کردہ جو متن ہے. اسکی سند ہمارے نزدیک ضعیف ہے.
.
.
تحقیق : مولانا نعیم عباس النجفی.
تحریر : سید عدنان حیدر نقوی.