



اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا۔
بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے(الاحزاب 57)

ہمارے لیے ہر وہ شخص قابل احترام ہے جس نے اللہ و رسولﷺ کے حکم پر لبیک کہا اور اہلبیتؑ سے اچھا سلوک کیا۔







.
.
.
ملا علی قاری حنفی شرح مشکوٰة میں لکھتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ کو ایذا دینا حرا_م ہے خواہ کسی حال میں ہو اور کسی طریقے سے بھی ہو نیز وہ ایذا اگرچہ ایسے کام سے ہو جو فی نفسہ مباح اور جائز ہے
آگے لکھتے ہیں؛
حضورﷺ نے حضرت علیؑ پر شفقت کرتے ہوئے ان کو دوسرا نکاح کرنے کی اجازت اسی وجہ سے نہ دی کیونکہ اس سے حضرت فاطمہؑ کو تکلیف پہنچتی جو کہ رسول اللہﷺ کو ایذا اور تکلیف تھی جس سے حضرت علیؑ کیلئے ہلا_کت کا خدشہ تھا.



(
صحیح بخاری)

اب ان لوگوں کیلئے جو توضیح بھی پیش کی جائے مردود ہے کیونکہ رسولﷺ(فاطمہؑ) کو ایذا دینا کسی طرح بھی جائز نہیں۔

اسکے بعد عمر بن خطاب کا سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا کو افراد سمیت گھر جلانے کی دھمکی دینا اور مولا علیؑ کا فرمانا کہ ابوبکر کے ساتھ عمر نہ آئے کیونکہ وہ عمر کے آنے کو پسند نہ کرتے تھے
اس بات کا ثبوت ہے اس شخص نے بھی سیدہ فاطمہؑ کو ناراض کیا۔











جس سے جناب فاطمہ (ع) ناراض، اس سے الله تعالیٰ راضی نہیں!
اہل سنت کی معتبر و مستند کتب احادیث میں ایک معتبر سند سے کہ جس میں اہل البیت/آل محمد (ع) کے 5 آئمہ (امام جعفر الصادق، امام محمد الباقر، امام زین العابدین، امام حسین، امام علی ابن ابی طالب علیھم السلام) بھی راوی ہیں، رسول الله (ص) کی یہ حدیث مبارکہ موجود ہے:
«سند»
4730 – حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ عَفَّانَ الْعَامِرِيُّ، وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ دُحَيْمٍ، بِالْكُوفَةِ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ حَازِمِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَا: ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:
«قول رسول (ص)»
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِفَاطِمَةَ: «إِنَّ اللَّهَ يَغْضَبُ لِغَضَبِكِ وَيَرْضَى لِرَضَاكِ» [1]
ترجمہ:
رسول الله (ص) نے حضرت فاطمہ (ع) سے فرمایا: «بے شک الله آپ (ع) کی (کسی سے) ناراضگی سے (اس شخص سے) ناراض ہوتا ہے اور آپ (ع) کی رضا سے راضی ہوتا ہے۔»
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اہل سنت کے امام حاکم نیشاپوری کہتے ہیں:
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ (ترجمہ: یہ صحیح سند کی حدیث ہے) [2]
اسی حدیث کو امام حاکم نیشاپوری سے بھی قبل اہل سنت کے امام طبرانی نے اپنی کتاب “معجم الکبیر” میں اسی معتبر سند سے نقل کیا ہے [3]۔ امام طبرانی کی اس روایت کو اہل سنت کے امام سیوطی [4]، امام ہیثمی [5]، امام صالحی شامی [6]، اور امام مناوی [7] نے “حسن سند” (معتبر سند) بتلایا ہے۔
نوٹ: اہل سنت کے نزدیک اگر سند (chain of narrators) “صحیح” یا “حسن” ہو تو وہ معتبر (reliable and authentic) سند مانی جاتی ہے۔
پس اس معتبر سند سے حدیث نبوی (ص) سے ہمیں یقین ہوتا ہے کہ جس سے جناب سیدہ فاطمہ زہرا (ع) ناراض ہیں، الله تعالیٰ اس سے ہرگز راضی نہیں، اور جس سے جناب فاطمہ زہرا (ع) راضی ہیں، اسی سے الله تعالیٰ بھی راضی ہے۔ المختصر الله تعالیٰ نے رسول الله (ص) کی دختر (ع) کو یہ عظیم مقام و رتبہ عنایت فرمایا ہے کہ اپنی رضا کا معیار و میزان جناب سیدہ فاطمہ زہرا (ع) کو قرار دیا ہے!
«حوالہ جات»
[1] المستدرك على الصحيحين // حاکم نیشاپوی (متوفی 405 ھ) // حدیث 4730
[2] ایضاً
[3] المعجم الكبير // طبرانی (متوفی 360 ھ) // حدیث 182
[4] الثغور الباسمة في مناقب سيدتنا فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم // سیوطی (متوفی 911 ھ) // صفحہ 76
[5] مجمع الزوائد ومنبع الفوائد // نور الدین ہیثمی (متوفی 807 ھ) // حدیث 15204
[6] سبل الهدى والرشاد، في سيرة خير العباد (ص) // صالحی شامی (متوفی 942 ھ) // جلد 11 // صفحہ 44
[7] سيدة نساء اهل الجنة: فاطمة الزهراء: اتحاف السائل بما لفاطمة من المناقب // مناوی (متوفی 1031 ھ) // صفحہ 113







