کیا ام کلثوم بنت علی (علیہما السلام) عمر پر نوحہ کناں ہوئیں ؟

یہ روایت ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں نقل کی اب اس پر تحقیق مزید یہ کہ یہ روایت اہل السنہ کے اصول الحدیث کے مطابق بھی مردود ہے
پہلے روایت نقل کرتے ہیں اس کے بعد اس پر کلام ملاحظہ فرمائیے :
أخبرنا أبو القاسم أيضا، أنبأنا أبو بكر بن الطبري، أنبأنا أبو الحسين ابن بشران، أنبأنا أبو علي بن صفوان، أنبأنا أبو بكر بن أبي الدنيا، حدثني عبد اللّه بن يونس بن بكير، حدثني أبي، حدثني علي بن فاطمة العنزي، حدثني الأصبغ الحنظلي قال: لما كانت الليلة التي أصيب فيها علي أتاه ابن النباح حين طلع الفجر يؤذنه بالصلاة و هو مضطجع متثاقل، فعاد اليه الثانية و هو كذلك ثم عاد الثالثة فقام علي يمشي و هو يقول:
شدد حيازيمك للموت‌ فإن الموت لاقيكا و لا تجزع من الموت‌ إذا حل بواديكا فلما بلغ الباب الصغير شد عليه عبد الرحمن بن ملجم فضربه، فخرجت أم كلثوم بنت علي فجعلت تقول: ما لي و لصلاة الغداة؟ قتل زوجي أمير المؤمنين صلاة الغداة و قتل أبي صلاة الغداة.
ترجمہ: علی بن فاطمہ/ علی بن ابی فاطمہ اصبغ حنظلی سے روایت کرتے ہیں کہ
جس رات امیر المؤمنین کو ضرب لگی
اس رات علی الفجر آپ (علیہ السلام) کے پاس ابن النباح ( جناب امیر کے موذن) آئے ۔۔۔۔۔۔۔تو ام کلثوم نکلی اور کہنے لگی
ما لي و لصلاة الغداة؟ قتل زوجي أمير المؤمنين صلاة الغداة و قتل أبي صلاة الغداة.
میرا نماز صبح کیا واسطہ ! میرے شوہر امیر المؤمنین نمازِ فجر میں مارے گئے اور میرے بابا نمازِ فجر میں مارے گئے۔
تاریخ مدینة دمشق ج 42 ص 555
الکلام:
اس روایت میں اصبغ سے روایت کرنے والے
علی بن فاطمہ ہیں ان کا نام دو طرح سے وارد ہوا ہے
علی بن فاطمہ
علی بن ابی فاطمہ
یہ اصلا ایک ہی راوی ہے
ان کا نام علی بن حزور ہے
یہ ضعیف روای ہے اور اس کی روایت سے احتجاج جائز نہیں چنانچہ ہم علماء کا کلام نقل کرتے ہیں :
حافظ ابن حجر العسقلاني کی رائے :
” متروك، شديد التشيع “
متروک ہیں تشیع میں شدید تھے۔
تحریر تقریب التھذیب ج 3 ص 37
ابن شاہین :
لیس بثقة
یہ ثقہ نہیں
تاریخ اسماء الضعفاء و الکذابین ج 1 ص 124
ابن معین:
لیس یحل لاحد ان یروی عنھم
ان سے روایت کرنا کسی کے لئے جائز نہیں۔
تاریخ الدوري ج 2 ص 416
جوزجانی ناصبی
ذاھب
یہ زائل ہونے والا ہے
احوال الرجال للجوزجانی ص 195
نوٹ : یہ کوفی شیعہ راوی ہیں ان پر جوزجانی ناصبی کی جرح نا قابل قبول ہے لیکن ہم اسے تائیدا لا رہے ہیں ورنہ ہماری اساس معتدل علماء الجرح و التعدیل ہی کی آراء پر مبنی ہے۔
محمد بن اسماعیل البخاری : فیہ نظر
اس میں نظر ہے
تاریخ الکبیر ج 6 ص 296
دارَقُطنی : انہوں نے ان کا ترجمہ اپنی کتاب “الضعفاء و المتروکین” میں لکھا نیز دوسرے مقام پر ان کو “لیس بالقوی فی الحدیث”
الضعفاء المترکون ص ٣١٣
علامہ نَسائی : متروک الحدیث
یہ متروک الحدیث ہیں
کتاب الضعفاء و المتروکین ص 179
ابن حبان:
عَليّ بن أبي فَاطِمَة وَهُوَ الَّذِي يُقَال لَهُ عَليّ بن الحزور يروي عَن أبي مَرْيَم عداده فِي أهل الْكُوفَة روى عَنهُ يُونُس بن بكير كَانَ مِمَّن يخطىء حَتَّى خرج عَن حد الِاحْتِجَاج بِهِ إِذا انْفَرد على قلَّة رِوَايَته
ترجمہ : علی بن ابی فاطمہ انہی کو علی بن محزور کہا جاتا ہے یہ ابی مریم سے روایت کرتے ہیں اہل کوفہ میں شمار ہوتے ہیں ان سے یونس بن بکیر روایت کرتے ہیں۔ان افراد میں سے تھے جو ( روایت ) میں خطا کر جایا کرتے تھے یہاں تک کہ جب روایت کرنے میں تنہا ہوں تو ان کے قلتِ روایت کی بنا پر ان سے احتجاج ساقط ہو جاتا کے۔
کتاب المجروحين من المحدثین لابن حبان ج٢ ص ٧٥
خلاصہ :مذکورہ بالا تصریحات سے ثابت ہوا کہ یہ راوی ناقابل احتجاج ہے اور یہ روایت شدید ضعیف ہے۔