مقتل ابی مخنف

.
مؤرخ ابو مخنف لوط بن یحیی الازدی(م157ھ)
ابو مخنف کو ہمارے یہاں خاصی بُرا بھلا کہا جاتا ہے کہ کذاب ہے حالانکہ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس کو کذاب صرف متأخرین نے کہا ہے۔یہ حدیث میں ضعیف ہے کیونکہ کثرت سے مجاہیل سے روایت کرتا ہے جو کہ ضعف کی ایک وجہ ہوتی ہے اور ایسے شخص کی احادیث میں شبہ ہر وقت رہتا ہے، مگر تاریخ میں ثقہ ہے۔ دلائل پیش ہیں:
(➊)۔ ابن فقیہ الہمذانی رحمہ اللہ نے اس کو “الثقة المؤتمن” قرار دیا ہے۔[كتاب البلدان لابن الفقيه، صفحہ نمبر ۲۵۵] یہ ایک توثیق ہے۔اور ابنِ فقیہ الہمدانیؒ کا اپنا موضوع تاریخ و جعرافیہ ہی تھا۔اس فن میں ان کی مہارت کا کسی نے انکار نہیں کیا ہے۔
(➋)۔ اس کے علاوہ مؤرخ یعقوبی اس کو ابو جعفر منصور کے دور کے بڑے علماء میں شمار کیا ہے۔[تاريخ اليعقوبي، صفحہ نمبر ۲۷۴] مؤرخ یعقوبی کی اس کتاب کی تعریف امام زرکلی رحمہ اللہ نے فرمائی ہے۔[الأعلام للزركلي، جلد ۱، صفحہ نمبر ۹۵]
(➌)- امام ابن کثیر (المتوفیٰ: ۷۷۴ھ) کہتے ہیں:
ذكر ابن جرير عن ابي مخنف لوط بن يحيى وهو أحد أئمة هذا الشأن
ترجمہ: ابن جریر نے نقل کیا ابو مخنف لوط بن یحیی سے جو کہ اس معاملہ (تاریخ میں) میں امام ہیں۔
[البداية والنهاية ط هجر، جلد ۱۰، صفحہ نمبر ۵۴۶]
مزید فرماتے ہیں:
وَأَكْثَرُهُ مِنْ رِوَايَةِ أَبِي مِخْنَفٍ لُوطِ بْنِ يَحْيَى، وَقَدْ كَانَ شِيعِيًّا، وَهُوَ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ عِنْدَ الْأَئِمَّةِ، وَلَكِنَّهُ أَخْبَارِيٌّ حَافِظٌ، عِنْدَهُ مِنْ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ مَا لَيْسَ عِنْدَ غَيْرِهِ
ترجمہ: اور ان (مقتلِ حسینؓ) میں سے اکثر روایات ابو مخنف لوط بن یحیی کی ہیں، وہ ایک شیعہ تھا اور آئمہ کے یہاں حدیث میں ضعیف تھا، مگر وہ تاریخی اخبار کا حافظ تھا، اس کے پاس وہ چیزیں ہیں جو اوروں کے پاس نہیں۔
[البداية والنهاية ط هجر، جلد ۱۱، صفحہ نمبر ۵۷۷]
امام ابنِ کثیرؒ نے شہادتِ حسینؓ میں ابو مخنف کی روایات ذکر کی ہیں اور ان کے بقول یہ صرف مستند روایات تھیں۔
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا:
صِفَةُ مَقْتَلِهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَأْخُوذَةً مِنْ كَلَامِ أَئِمَّةِ هَذَا الشَّأْنِ لَا كَمَا يَزْعُمُهُ أَهْلُ التَّشَيُّعِ
ترجمہ: یہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس شہادت کی تفصیل ہے جو عظیم آئمہ نے بیان کی اور جو اہل تشیع کے کذب سے محفوظ ہے۔
[البداية والنهاية ط هجر، جلد ۱۱، صفحہ نمبر ۵۲۱]
(➍)۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے ابو مخنف کی ایک روایت کی سند کو نقل کرتے ہوئے فرمایا:
وَقَالَ أَبُو مِخْنَفٍ – وَلَيْسَ بِثِقَةٍ لَكِنْ لَهُ اعْتِنَاءٌ بِالأَخْبَارِ-: حَدَّثَنِي مُجَالِدٌ
ترجمہ: اورابو مخنف نے کہا-یہ ثقہ نہیں تھا مگر تاریخ کا وہ ماہر تھا-میں نے مجالد سے سُنا…
[تاريخ الإسلام ت تدمري، جلد ۵، صفحہ نمبر ۹۵]
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امام ذہبیؒ اپنے رویے کو justify کر رہے ہیں یا ایک طرح سے ایک روایت سے کوئی استدلال پکڑنا چاہتے تھے تب ہی سند کے دوران ہی حکم عرض کیا۔
(➎)۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کی تاریخِ وفات پر امام بخاریؒ تک کے اقوال ذکر کیے مگر سب کو ردّ کردیا اور کہا:
فَالْمُعْتَمَدُ مَا قَالَ أَبُو مِخْنَفٍ
ترجمہ: قابلِ اعتماد وہ ہے جو ابو مخنف نے کہا۔
[فتح الباري لابن حجر، جلد ۸، صفحہ نمبر ۴۳۰]
ابو مخنف کی تاریخی جلالت و شان کے اثبات کے لیے یہی کافی ہے۔
¶}= ابو مخنف کی تاریخ میں ثقاہت کی دلیل یہ بھی ہے کہ ثقہ آئمہ نے اس سے بکثرت روایات لی ہیں جن میں امام مدائنی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، امام ابنِ سعدؒ بھی شامل ہیں، امام ابو نعیم رحمہ اللہ، امام حاکم رحمہ اللہ اور بہت سارے آئمہ شامل ہیں۔محدثین میں سے بہت ساروں کے یہاں یہ ثقاہت کی دلیل ہوتی ہے۔اور قابلِ غور یہ ہے کہ سیف بن عمر جس کو سلف صالحین نے کذاب کہا ہے، اس کی روایات ان محدثین نے ترک کی ہے، امام ابو نعیم رحمہ اللہ، امام خرائطی رحمہ اللہ وغیرہ اس سے روایت نہیں کرتے مگر یہ تمام آئمہ ابو مخنف سے روایت کرتے ہیں۔
اس پر جتنی جروحات ہیں، ان پر ایک نظر بھی کرلیتے ہیں:
(➊)۔امام ابنِ عدی رحمہ اللہ نے فرمایا:
وَهو شاعي محترق صاحب أخبارهم
ترجمہ: وہ کٹر شیعہ تھا اور ان کی روایات بیان کرتا تھا۔
[الكامل في ضعفاء الرجال، جلد ۷، صفحہ نمبر ۱۴۱]
اہلِ تشیع سے روایت لینا عند الآئمہ جائز ہے، بعض کا موقف الگ ہے مگر اہلِ تشیع ہونا کذاب ہونے کے برابر نہیں۔ انہوں نے بھی کذاب نہیں کہا۔
(➋)۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [الضعفاء والمتروكون للدارقطني، جلد ۳، صفحہ نمبر ۳۲۸] یہ تو ہم بھی مانتے ہیں۔ کثرت سے مجاہیل و ضعفاء سے روایت کرنا علمِ حدیث میں ایک عیب ہے، مگر تاریخ میں نہیں۔ انہوں نے بھی کذاب نہیں کہا۔
(➌)۔ امام ابن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أبو مخنف ليس بثقة
ترجمہ: ابو مخنف ثقہ نہیں تھا۔
[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، جلد ۷، صفحہ نمبر ۱۸۲، تاريخ ابن معين – رواية الدوري، جلد ۳، صفحہ نمبر ۲۸۵]
امام ابنِ معین رحمہ اللہ جروحات کے معاملے میں متشدد سمجھے جاتے ہیں اور انہوں نے بھی کذاب نہیں کہا۔
(➍)۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے اس کو “متروک الحدیث” قرار دیا۔[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم، جلد ۷، صفحہ نمبر ۱۸۲]
بات وہی ہے کہ حدیث میں متروک کہا ہے اور دوسرا یہ متشدد بھی ہیں، تیسرا یہ کہ انہوں نے بھی کذاب نہیں کہا۔
(➎)۔ پانچویں صدی کے عالم امام اسماعیل الاصفہانی رحمہ اللہ جو کہ ایک محدث بھی نہیں تھے، عقیدے کے امام تھے، وہ کہتے ہیں:
فَأَما مَا رَوَاهُ أَبُو مخنف وَغَيره من الروافض فَلَا اعْتِمَاد بروايتهم
ترجمہ: پس جو کچھ ابو مخنف جیسے روافض نے بیان کیا تو وہ قابلِ اعتبار نہیں۔
[الحجة في بيان المحجة، جلد ۲، صفحہ نمبر ۵۶۸]
اور جو شخص ان کو محدث مانتا ہے، اس کے لیے ایک الزامی جواب پیش ہے۔عین اسی صفحہ پر یہ فرماتے ہیں:
قَالَت فَاطِمَة بنت الْحُسَيْن – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -: دَخَلنَا عَلَى نِسَائِهِ فَمَا بقيت امْرَأَة من آل مُعَاوِيَة إِلَّا تلقتنا تبْكي وتنوح عَلَى الْحُسَيْن – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – هَذَا مَا نَقله الثِّقَات من أهل الحَدِيث
ترجمہ: فاطمہ بنت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے ان کی عورتوں کو دیکھا تو معاویہ کی اولادوں میں سے کوئی ایک عورت نہ بچی یہاں تک کہ وہ روتی اور حسینؓ کے لیے نوحہ کرتی۔یہ وہ باتیں ہیں جو علمائے حدیث میں سے ثقات نے روایت کی ہیں۔
[الحجة في بيان المحجة، جلد ۲، صفحہ نمبر ۵۶۸]
آپ اس نوحہ والی روایت کو قبول کرتے ہیں جس کو یہ صاحب ثقات سے مروی روایات بتارہے ہیں؟ صرف اتنا ہی نہیں، انہوں نے پوری شہادتِ حسینؓ بیان کی ہے اور متعدد روایات کو صحیح قرار دیا ہے جن سے ابنِ ذیاد کی مذمت ہوتی ہے کہ اس نے چھڑی بھی ماری، قتل بھی اسی نے کیا۔ماننا ہے تو سب مانیں۔ یزید کے گورنر کو ذمہ دار تو ان صاحب نے بھی قرار دیا۔
(➏)۔ اس کو سب سے پہلے کذاب امام ابنِ جوزی رحمہ اللہ نے کہا:
أبو مخنف وكلهم كذابون
ترجمہ: ابو مخنف اور یہ سب کذاب ہیں۔
[الموضوعات لابن الجوزي، جلد ۱، صفحہ نمبر ۴۰۶]
مگر ان سے بہت بڑے بڑے بلنڈر ہوتے ہیں۔ انہوں نے تو بڑے بڑے راویوں کو ضعیف و مجہول بنادیا۔ اتنے متشدد ہیں کہ حد نہیں۔ کتبِ صحاح اور تمام کتبِ احادیث کے متفق علیہ راوی عبد الوہاب بن عبد المجید الثقفیؒ جن کی توثیق کم از کم بیس علماء سے ثابت ہے، ان کو “ضعفاء” میں شامل کرکے ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
عبد الْوَهَّاب بن عبد الْمجِيد بن الصَّلْت قَالَ أَبُو حَاتِم الرَّازِيّ مَجْهُول
ترجمہ: عبد الوہاب بن عبد المجید بن الصلت، ابو حاتم الرازیؒ نے کہا کہ یہ مجہول ہے۔
[الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي، جلد ۲، صفحہ نمبر ۱۵۸]
عبد الوہاب الثقفیؒ سے صحیحین میں کم از کم دو سو روایات مروی ہیں۔ اور اس کو یہ صاحب مجہول بنارہے ہیں اور یہ بات امام ابو حاتمؒ سے ثابت بھی نہیں۔
(➐)۔ اس کے علاوہ متأخرین میں امام ابن تیمیہؒ، امام ابنِ عراق الکنانیؒ اور امام سیوطیؒ نے اس کو کذاب قرار دیا ہے مگر بلادلیل ہے۔ [منهاج السنة النبوية، جلد ۵، صفحہ نمبر ۸۱، اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة، جلد ۱، صفحہ نمبر ۳۵۵، نزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة، جلد ۱، صفحہ نمبر ۹۸]
امام ابن تیمیہؒ منہاج السنۃ میں کئی صحیح احادیث کو روافض کے ردّ کے چکر میں ضعیف قرار دے چکے ہیں۔ ان سے بہت غلطیاں ہوئیں ہیں۔ اس کتاب میں ان کی آراء قابلِ اعتبار نہیں اور سیوطی و کنانی دونوں نوی صدی ہجری کے ہیں، ان کا خود سورس کیا ہے، یہ معلوم ہونا ضروری ہے۔ ان کو وہم لگا ہے۔
تحریر : سید محمد عکاشہ
.
.
مقتل ابی مخنف اور ابن کثیر
مشہور مفسر اور مورخ ابن کثیر اپنی کتاب البدایہ والنہایہ (تاریخ ابن کثیر) میں کربلا کے واقعات کے متعلق لکھتے ہیں:
کربلا کے وہ واقعات نقل کرے گے جو معتبر ہونگے ناکہ شیعہ کے بناوٹی واقعات کو اور انہوں نے اس کی ابتداء “مقتلِ ابی مخنف” سے کی ہے
ابی مخنف شیعہ ہی تھے
.
.
کھلا تضاد۔۔۔۔۔ مقتل الحسین اور سیرت ابن اسحاق
√ واقعہ کربلا 61 ھجری کو پیش آیا
✓ لوط بن یحیی کی تاریخ وفات 157 ھجری ہے جبکہ تاریخ پیدائش 709 عیسوی ہے جو تقریبا 90 ھجری بنتی ہے۔۔۔۔۔ یعنی واقعہ کربلا کے تقریبا 29 سال بعد پیدا ہوئے۔۔۔۔ اور مقتل ابن مخنف کا مسودہ چوتھی ھجری تک موجود رہا۔
✓ ابن اسحاق 704 عیسوی یعنی 85 ھجری میں پیدا ہوئے جبکہ ان کی تاریخ وفات 149 یا 150 ھجری بنتی ہے۔
✓ ابن ھشام 833 عیسوی کو فوت ہوئے یعنی 217 ھجری میں
✓ سیرت ابن اسحاق کا کوئی مسودہ آج کل موجود نہیں ایک مسودہ ابن ھشام کی نظر سے گزرا جس کی نوک پلک درست کر کے اور مزید کچھ اضافہ کر کے سیرت ابن ھشام لکھی گئی
خلاصہ کلام: مقتل ابن مخنف و سیرہ ابن اسحاق ہم عصر ہیں کیونکہ ابن اسحاق اور لوط بن یحیی ہمعصر ہیں۔۔۔ سیرت ابن اسحاق تاریخ اسلام اور سیرت نبوی پر تحریر شدہ مسودہ تھی جبکہ مقتل ابن مخنف واقہ کربلا پر۔۔
کیا دو ہم عصر کتابوں میں ایک دوسرے کا ذکر ضروری ہے؟؟؟؟؟ کیا ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ مقتل ابو مخنف میں ابن۔اسحاق کے مسودے کا کوئی ذکر نہیں لہذا ابن اسحاق کا کوئی مسودہ ہی نہیں؟؟؟
اکثر کہا جاتا ہے کہ واقعہ کربلا کے 110 سال بعد مقتل ابو مخنف تحریر کی گئی
61 ھجری کے بعد 110 سال 171 ھجری بنتے ہیں جبکہ لوط بن یحیی 157 ھجری کو انتقال کر گئے۔۔۔۔ اس لئے آپ ریکارڈ درست کر لینا چاہیے۔۔۔ کیونکہ فوت ہونے کے بعد کوئی شخص کتاب نہیں لکھ سکتا۔۔۔۔ لامحالہ انہوں نے مقتل 157 ھجری سے پہلے لکھی ہوگی یعنی اگر 157ھجری ہی لیں تو 96 سال بعد واقعہ کربلا مقتل الحسین کی تاریخ بنتی ہے۔۔۔۔۔ ہائے میں قربان کہ اگر واقعہ کربلا کے 96 سال بعد کتاب لکھی جائے تو وہ جعلی جبکہ سیرت ابن اسحاق ھجرت کے 150 سال بعد لکھی گئی تو وہ بالکل درست۔۔۔۔ یہ کھلے تضاد بند ہونے چاہییں وگرنہ فائدہ اغیار ہی اٹھائیں گے
✓ محمد بن جریر طبری 224 ھجری کو پیدا ہوئے یعنی مقتل ابو مخنف کے لکھے جانے صرف ستر سال بعد۔۔۔۔اور مسودہ چوتھی صدی ھجری تک موجود رہا۔۔۔۔ سیرت ابن۔اسحاق 217 ھجری (تاریخ وفات) میں ابن ھشام نے دوبارہ تدوین کی یعنی اس وقت تک اصل مسودہ ایکسپائر ہو چکا تھا جبکہ مقتل ابن مخنف ایسی حالت میں موجود تھی کہ جریر طبری نے اس سے حوالہ جات لئے نہ کہ اس کی دوبارہ تدوین کی۔۔۔۔
لیکن اس کے باوجود مقتل ابی مخنف جعلی۔۔۔۔۔ سیرت ابن اسحاق اصلی و سچی۔۔۔۔۔