کتاب سلیم کی صحت پر 50 علمائے امامیہ کی گواہی
.
1) علامہ تقی مجلسی (1070 ھ) لکھتے ہیں :
« إن الشيخين الأعظمين حكما بصحة كتابه، مع أن متن كتابه دال على صحته، فلا یلتفت الی ما ذکرہ ابن غضائری »
شیخین کتاب( کتابِ سلیم) کی صحت کا حکم دیتے ہیں ، کتاب کا متن اس کی صحت کی دلیل ہے ، اس بات پر توجہ نہ کی جائے جو ابن غضائری نے کہی (جو ابن غضائری سے منسوب ہے ).

2) حافظ ابن شھر آشوب (558 ھ) لکھتے ہیں :
« سليم بن قيس الهلالي صاحب الأحاديث، له كتاب»
سلیم بن قیس ھلالی ، صاحب الاحادیث ہیں ، ان کی ایک کتاب ہے ۔

3) شیخ ابن ابی زینب نعمانی (360 ھ) لکھتے ہیں :
« ليس بين جميع الامایة ممن حمل العلم ورواه عن الأئمة عليهم السلام خلاف في أن كتاب سليم بن قيس الهلالي أصل من أكبر كتب الأصول التي رواها أهل العلم وحملة حديث أهل البيت عليهم السلام وأقدمها لأن جميع ما اشتمل عليه هذا الأصل إنما هو عن رسول الله وأمير المؤمنين صلوات الله عليهما والمقداد وسلمان الفارسي وأبي ذر ومن جرى مجراهم ممن شهد رسول الله وأمير المؤمنين صلوات الله عليهما وسمع منهما. وهو إليها وتعول عليها »
اس بات ہر امامیہ کے یہاں کوئی اختلاف نہیں کہ کتاب سلیم بن قیس الھلالی ایک اصل ہے بڑے اصولوں میں سے جنکو علماء و راویوں نے روایت کیا ہے اھل بیتؑ سے اور یہ ایک قدیم اصول ہے۔ سب کچھ جو اس میں نقل ہوا ہے وہ رسول اللہ ﷺ ، امام علیؑ، مقدادؓ، سلمان فارسیؓ، ابو ذرؓ اور ان جیسوں سے نقل ہوا ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ اور امیر المومنینؑ کو دیکھا اور ان سے روایات لی۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس پر امامیہ کا انحصار ہے اور اسکی طرف رجوع کرتے ہیں۔

4) سيد أحمد بن موسى آل طاؤوس (664 ھ) :
« تضمن الكتاب ما يشهد بشكره وصحة كتابه»
کتاب کے ضمن میں جو چیزیں شامل ہیں جو کتاب کی صحت کی گواہی دیتی ہیں ۔

5) المولى عبد الله البشروئی التوني ( 1071 ھ) لکھتے ہیں :
« إن أحاديث الكتب الأربعة … مأخوذة من أصول وكتب معتمدة معول عليها، كان مدار العمل عليها عند الامامیة وكان عدة من الأئمة عليهم السلام عالمين بأن شيع—-تهم يعملون بها في الأقطار والأمصار، وكان مدار مقابلة الحديث وسماعه في زمن العسكريين عليها السلام بل بعد زمان الصادق عليه السلام على هذه الكتب، ولم ينكر أحد من الأئمة عليهم السلام على أحد من الشيعة في ذلك بل قد عرض عليهم عدة من الكتب ككتاب الحلبي وكتاب حريز وكتاب سليم بن قيس الهلالی»
کتبِ اربعہ کی احادیت مستند اور معتبر اصول اور کتب سے ماخوذ ہیں اور امامیہ کے نزدیک یہ مدارِ عمل تھیں اور آئمہ اہلبیت جانتے تھے کہ مختلف خطوں ملکوں میں مقیم ان کے پیروکار ان کتبِ حدیث پر عمل پیرا ہیں اور یہاں تک کہ امام علی نقی اور حسن عسکری کے دور بلکہ امام جعفر صادق کے دور کے بعد سے کتب حدیث کے مختلف مخطوطات کی متابعت و تحقیق اور سماعت حدیت کا دارومدار انہیں کتب پر تھا اور ائمہ علیہم السلام میں سے کسی نے بھی شیع/////وں میں سے کسی کی بھی اس بات پر مذمت نہیں کی، بلکہ کئی کتب ان کے سامنے پیش کیں گئیں، جیسا کہ حلبی کی کتاب، کتابِ حریز ، اور کتاب سلیم بن قیس ہلالی۔

6) شیخ حر عاملی (1104 ھ) لکھتے ہیں :
« (الفائدة الرابعة في ذكر الكتب المعتمدة التي نقلت منها أحاديث هذا الكتاب وشهد بصحتها مؤلفوها وغيرهم وقامت القرائن على ثبوتها وتواترت عن مؤلفيها أو علمت صحة نسبتها إليهم بحيث لم يبق فيها شك ولا ريب كوجودها بخط أكابر العلماء وتكرر ذكرها في مصنفاتهم وشهادتهم بنسبتها وموافقة مضامينها لروايات الكتب المتواترة أو نقلها بخبر واحد محفوف بالقرينة وغير ذلك۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وكتاب سليم بن قيس الهلالي »
چوتھا فائدہ ، ان قابلِ اعتماد و اعتبار کتابوں کا تذکرہ جن سے میں نے اس کتاب میں احادیث نقل کی ہیں اور ان کے مؤلفین نے ان کی صحت کی گواہی دی ہے ، قرائن بھی ان کے ثابت ہونے پر دلالت کرتے ہیں ، ان کتابوں کی ان کے مؤلفین تک نسبت تواتر سے ثابت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اور وہ یہ کتابیں ہیں : ۔۔۔۔۔ ان میں سے ایک کتابِ سلیم بن قیس الھلالی ہے۔

7) السيد هاشم البحرانی ( 1107 ھ) لکھتے ہیں :
« وهو (أي كتاب سليم) كتاب مشهور معتمد نقل عنه المصنفون في كتبهم ، وھو من التابعین رائ علیاً و سلمان و ابا ذر »
یہ کتاب سلیم بن قیس مشہور اور معتبر ہے ، اس کتاب سے مؤلفین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے ، (سلیم بن قیس) تابعین میں سے ہیں انہوں نے علی سلمان اور ابو ذر علیہ السلام سے روایات نقل کی ہیں »


« و کتاب سليم بن قيس في غاية الاشتهار و قد طعن فيه جماعة ، و الحق أنه من الأصول المعتبرة »
کتاب سلیم بن قیس مشہور کتاب ہے ، ایک گروہ نے اس پر اعتراض کیا ہے ، اور حق بات یہ ہے کہ یہ معتبر اصولوں میں سے ہے ۔

9) حیدر علی شیروانی لکھتے ہیں :
« وبذلك يعلم صحة كتاب سليم بن قيس الهلالي فإنه ورد من طرق عديدة حسنة وصحيحة عن ثقات أصحاب الأئمة عليهم السلام وأجلائه »
اور وہ کتاب سلیم کے صحیح ہونے کو جانتے ہیں کیوں کہ یہ کئی حسن و صحیح طرق سے آئمہ کے ثقہ اصحاب سے نقل ہوئی ہے

10) علامہ میر حامد حسین الھندی (1306 ھ) لکھتے ہیں :
« كتاب سليم بن قيس الذي يمكننا أن نقول في حقه أنه أقدم وأفضل من جميع كتب الإمامية الحديثية كما اعترف المجلسي بذلك في مجلد الفتن من البحار »
کتاب سلیم ، جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ امامیہ کی تمام کتب میں قدیم اور افضل ہے ، جیسا کہ علامہ باقر مجلسی نے بحار میں اس کا اعتراف کیا ۔

11) علامہ خوانساری ( 1313 ھ ) لکھتے ہیں :
« كتابه المشار إليه فهو أول ما صنف ودون في الإسلام وجمع فيه الأخبار كما في البال »
اور ان کی مذکورہ کتاب اسلام کی سب اولین کتب میں سے جس کی تصنیف و ترتیب کی گئی مصنف نے اس کتاب اپنی حفظ کی گئی روایات کو من و عن جمع کر دیا۔

12) محدث نوری طبرسی (1320 ھ) لکھتے ہیں :
« كتابه من الأصول المعروفة وللأصحاب إليه طرق كثيرة »
کتابِ سلیم معروف اصولوں میں شمار ہوتی ہے ، اور ہمارے اصحاب کے پاس اس کے کثیر طرق ہیں ۔

13) محمد ہاشم الخراسانی (1352 ھ) لکھتے ہیں :
« كتاب سليم بن قيس الذي ودعه إلى أبان بن أبي عياش معروف »
سلیم بن قیس کی کتاب جو اس نے ابان بن ابی عیاش کے سپرد کی تھی , معروف ہے ۔

14) محدث شیخ عباس القمی (1352 ھ) لکھتے ہیں:
« هو أول كتاب ظهر لامامیة معروف بين المحدثين، اعتمد عليه الشيخ الكليني والصدوق وغيرهما من القدماء رضوان الله عليهم »
کتاب سلیم وہ پہلی کتاب ہے جو امامیہ کے سامنے ظاہر ہوئی ، یہ محدثین میں معروف ہے اور اس پر شیخ کلینی ، شیخ صدوق اور دوسرے مقدمین اعتماد کرتے ہیں ۔

15) علامہ مامقانی (1351 ھ) لکھتے ہیں :
« إن كتاب سليم بن قيس في غاية الاعتبار »
سلیم بن قیس کی کتاب معتبر ہے ۔

16) سيد حسين البروجردی (1283 ھ) لکھتے ہیں :
« سليم بن قيس الهلالي ثقة من أولياء الآل كتابه من الأصول »
سلیم بن قیس ثقہ ہیں ، اولیا میں شمار ہوتے ہیں ان کی کتاب ( معتبر ) اصولوں میں سے ہے ۔

17) علامہ خیابانی لکھتے ہیں :
« كتابه معروف وهو من الأصول الأربعمائة المشهورة وهو أول كتاب ظهر في الامامیة… واعتمد عليه الصدوق والكليني وغيرهما من أكابر المحدثين اعتمادا تاما»
کتاب سلیم معروف ہے ، یہ چار سو مشہور اصولوں میں شامل ہے اور یہ پہلی کتاب ہے جو امامیہ کے سامنے ظاہر ہوئی ، اس پر شیخ صدوق ، شیخ کلینی اور دوسرے اکابر محدثین نے اعتماد کیا ہے ۔

18) شیخ آقائے بزرگ طھرانی (1379 ھ) لکھتے ہیں :
« أصل سليم بن قيس الهلالي وهو من الأصول القليلة التي أشرنا إلى أنها ألفت قبل عصر الصادق عليه السلام، كتاب سليم هذا من الأصول الشهيرة عند الخاصة والعامة »
سلیم بن قیس کی اصل (کتاب) ان اصولوں میں سے ہے جن کے بارے میں ہم نے اشارہ کیا کہ یہ امام جعفرِ صادق ع کے دور سے پہلے ہی تصنیف ہوگئی تھیں ، یہ عامہ و خاصہ کے نزدیک مشہور اصولوں میں سے ہے ۔

19) شیخ نجاشی (460 ھ) لکھتے ہیں :
« أنا أذكر المتقدمين في التصنيف من سلفنا الصالح وهي أسماء قليلة ۔۔۔۔ سليم بن قيس الهلالي له كتاب، يكنى أبا صادق، أخبرني علي بن أحمد… »
میں نے مقدمین میں ان کا ذکر کیا ہے جن کی سلف صالحین میں کوئی تصنیف موجود ہے اور وہ چند نام یہ ہیں ……. سلیم بن قیس الھلالی ، ان کی کنیت ابا صادق ہے ( پھر کتاب کی سند ذکر کرتے ہیں ) ۔

20) شیخ طوسی (465 ھ) لکھتے ہیں :
« سليم بن قيس الهلالي يكنى أبا صادق، له كتاب أخبرنا به ابن أبي جيد… »
سلیم بن قیس الھلالی ، ان کی کنیت ابا صادق ہے ، ان کی ایک کتاب ہے ، (پھر کتاب کی سند ذکر کرتے ہیں ) ۔

21) علامہ سید حسن الصدر (1354 ھ) لکھتے ہیں :
« (سلیم بن قیس) كتاب جليل عظيم روى فيه عن علي عليه السلام وسلمان الفارسي وأبي ذر الغفاري والمقداد وعمار بن ياسر وجماعة من كبار الصحابة »
کتاب سلیم بن قیس عظیم کتاب ہے ، اس میں حضرت علی ، سلمان ، ابو ذر ، مقداد ، عمار بن یاسر اور دیگر کبار صحابہ سے روایات لی گئی ہیں ۔

22) علامہ سید صفائی خوانساری (1359 ھ) لکھتے ہیں :
« إن كتابه من أكبر الأصول القديمة والمحكوم بالصحة والمعروض على الأئمة عليهم السلام فحكموا بصحته وصحة أحاديثه »
یہ کتاب عظیم قدیم اصولوں میں سے ہے ، اس کتاب کو آئمہ ع کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے اسکی اور اس میں موجود احادیث کی صحت کی گواہی دی ۔

23) علامہ امینی نجفی (1390 ھ) لکھتے ہیں :
« كتاب سليم من الأصول المشهورة المتداولة في العصور القديمة المعتمد عليها عند محدثي الفريقين وحملة التاريخ »
کتاب سلیم بن قیس قدیم زمانے کے مشہور و معتبر اصولوں میں سے ہے جس پر دونوں گروہوں کے محدثین اور تاریخ دانوں نے اعتماد کیا ہے ۔

]
24) علامہ سید محمد صادق آل بحر العلوم لکھتے ہیں :
« قد حقق هؤلاء الأعاظم صحة نسبة الكتاب إلى سليم وأنه معتبر غاية الاعتبار وأخباره صحيحة موثوق بها »
اور علماء نے سلیم کی طرف کتاب کی نسبت اور صحت کی تصدیق کی ہے اور یہ کتاب معتبر ہے اور اس کی خبریں (روایات) صحیح و موثق ہیں ۔

25) علامہ مرعشی نجفی (1411 ھ) لکھتے ہیں :
« هو من أقدم الكتب عند الامامیة وأصحها بل حكم بعض العامة بصحته »
یہ امامیہ کے نزدیک قدیم ترین کتابوں میں سے ہے ، بلکہ بعض عامہ نے بھی اس کی صحت کی گواہی دی ہے ۔

26 ) سید احمد بن علی العقیقی (280 ھ) جو کہ مقدمین میں سے ہیں ان کی رائے کو علامہ حلی نقل کرتے ہیں :
« وقال سید العقیقي فی کتاب الرجال ، ابان بن ابی عیاش ، و کان سبب تعریفه ھذا الامر سلیم بن قیس »
سید عقیقی نے اپنی رجالی کتاب میں کہا ابان بن ابی عیاش کی تعریف کی وجہ اس کا سلیم بن قیس سے کتاب کو نقل کرنا ہے ۔

27 ) شیخ صدوق (381 ھ) اپنی اعتقادات (عقیدے) کی کتاب میں کتاب سلیم سے روایت نقل کرتے ہیں :
« وروی عن سلیم بن قیس الھلالی انه قال: قلت لا امیر المومنین علیہ السلام ۔۔۔۔ »

28) محدث علی نمازی (1364 ھ) لکھتے ہیں :
« ومن لاحظ كتاب سليم يظهر لـه حسنهما وكمالهما ووثاقتهما وأن التضعيف منشؤه من المخالفين .كما أن قول العلامة الأميني »
اور جو شخص سلیم کی کتاب کو دیکھے گا، تو وہ ابان کے حسنات و کمالات کو جانے گا یہ کہ وہ قابل اعتماد ہیں، اور ان کی تضعیف مخالفین سے نقل ہوئی ہے ۔ جیسا کہ الامینی کا قول ہے ۔

29) آیت اللہ العظمی محمد صادق روحانی (1444 ھ) اپنی کتاب میں سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
س : کیا آپ کے نزدیک کتاب سلیم بن قیس مستند ہے ؟
ج: جی ہاں ، سلیم بن قیس کی کتاب اصولِ معتبرہ میں سے ہے ۔ یہ ان کتابوں میں سے ہے جو صدیوں سے اپنے مؤلفین سے متواتر طور پر منقول ہیں ۔ ان کتابوں کی نسبت ان کے مؤلفین سے اس طرح ثابت ہے کہ ان کے بارے میں کسی قسم کا شک نہیں کیا جاسکتا ۔

30) شیخ محیی الدین مامقانی تنقیح المقال کے حاشیے میں لکھتے ہیں :
« فأبان بن أبي عياش بينما كان راوياً جليلاً، وثقة كبيراً عندهم، يأخـذون منه »
پس ابان بن ابی عیاش ہمارے نزدیک جلیل و ثقہِ کبیر راوی راوی ہے جس سے روایات لی گئی ہیں ۔(آبان کی توثیق کرنا کتاب سلیم کی توثیق کے مترادف ہے )

31) رئیس المحدثین آیت اللہ الخوئی رح لکھتے ہیں :
« أن كتاب سليم بن قيس ـ على ما ذكره النعماني ـ من الأصول المعتبرة بل من أكبرها، وأن جميع ما فيه صحيح قد صدر من المعصوم عليه السلام أو ممن لابد من تصديقه وقبول روايته، وعده صاحب الوسائل في الخاتمة، في الفائدة الرابعة، من الكتب المعتمدة التي قامت القرائن على ثبوتها وتواترت »
کتاب سلیم بن قیس جیسا کہ شیخ نعمانی نے بھی ذکر کیا ، معتبر اصولوں میں سے ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ امامِ معصوم کی زبان سے صادر ہوا اور جس کو قبول کرنا ہے ، جیسے صاحب مستدرک الوسائل نے کتاب کے چوتھے فائدہ میں اسے معتبر کتابوں میں شمار کیا ہے جس کا ثبوت و تواتر قرائن سے ثابت ہے ۔

32) سید علی حسینی الصدر لکھتے ہیں :
« والحديث من حيث السند حسن بل صحیح کا وصفه بـه العلامة المجلسي واعتبره والده ، وكتاب سليم بن قيس لا شك في إعتباره ومقبوليته وإعتاد أكابر المحدثين المتقدمين كالكليني والصدوق وغيرهما »
یہ حدیث (جس میں آبان راوی ہے) سند کے لحاظ سے حسن ہے بلکہ صحیح ہے جیسا کہ علامہ مجلسی اور ان کے والد نے حکم لگایا ، اور کتاب سلیم بن قیس کی شہرت اور اس کے معتبر ہونے میں کوئی شک نہیں اور اس پر مقدمین محدثین جیسے شیخ کلینی ، شیخ صدوق وغیرہ نے اعتماد کیا ہے ۔

33) سید ہاشم الہاشمی الکلبایکانی لکھتے ہیں :
« أما كتابه فمما لا شك فيه أنه كتاب جمع فيه الأحاديث عن أمير المؤمنين وأصحابه كسلمان المحمدي (الفارسي) والمقداد بن الاسود »
جہاں تک ان کی کتاب کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں انہوں نے امیر المومنین اور ان کے ساتھیوں جیسے سلمان محمدی (الفارسی) اور المقداد اور ابن اسود ( علیہم السلام اجمعین) سے احادیث جمع کی ہیں ۔

34) آیت اللہ حسین مظاہری (1428 ھ) لکھتے ہیں :
« ابان بن ابی عیاش ، ثقہ ، لروایة حماد بن عیسی و عثمان بن عیسی کثیراً ، وھو الذی روی عن سلیم بن قیس و عطا سلیم کتابه عند الموت »
ابان بن ابی عیاش ثقہ ہیں ، ان سے حماد بن عیسی اور عثمان بن عیسی نے کثرت سے روایات کی ہیں جو کہ اصحاب اجماع میں سے ہیں ، ابان نے سلیم بن قیس سے روایت کی اور سلیم نے اپنی وفات کے وقت اپنی کتاب ابان کے حوالے کی ۔

35) شیخ باقر انصاری زنجانی (1394 ھ) کتاب سلیم کے راوی ابان کے متعلق لکھتے ہیں :
« الشيخ الثقة الفقيه الزاهد العابد طاووس القراء أبو إسماعيل أبـان بـن أبـي عـاش
العبدي البصري من أعاظم فقهاء زمانه »
شیخ ، ثقہ , عابد ، زاہد ابان بن ابی عیاش بصری اپنے زمانے کے عظیم فقہا میں سے تھے ۔

36) شیخ محمد منتظر الواعظ اپنی کتاب میں کتاب سلیم سے روایت نقل کرتے ہیں اور کتاب کے دفاع میں علما کے اقوال لاتے ہیں

37) شیخ ہادی نجفی ایک روایت جس میں کتاب سلیم کا راوی ابان ہے ، کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں :
« رجال السند كلهم ثقات إلا أبـان وقـد يـقال بـحسنه ، وعـلـيـه فـالـروايـة حسـنة »
سند کے سارے راوی ثقہ ہیں سوائے ابان کے جسے حسن الحدیث کہا گیا ہے ، پسں یہ روایت حسن ہے ۔

38) سید محسن عاملی (1371 ھ) کتاب سلیم کے راوی ابان کو حسن الحدیث قرار دیتے ہیں
« أن بعض المنامات السابقة دل على حسن حاله »

39) سيد محمد باقر موحد الأبطحی (1435 ھ) اصحاب امام علی ع کی کتب میں کتاب سلیم کا ذکر کرتے ہیں اور کتاب کی توثیق کے لئے شیخ نعمانی کا قول نقل کرتے ہیں ۔

40 ) شیخ احمد سلمان تونسی اپنی کتاب میں کتاب سلیم پر طویل بحث کرتے ہیں اور کتاب کا دفاع کرتے ہیں

41) شیخ حسن بن سلیمان الحلی (802 ھ) لکھتے ہیں :
« و من کتاب سلیم بن قیس الھلالی رحمة اللہ علیہ الذی رواہ ابان بن عیاش و قراء جمیعہ علی سیدنا علی بن الحسین ؑ بحضور جماعة اعیان من الصحابة منہم ابو طفیل فاقرہ علیہ زین العابدین ؑ قال ھذا احادیثنا صیحیة »
کتاب سلیم بن قیس الھلالی ؒ جس کو ابان بن عیاش نے روایت کیا ھے انہوں نے امام زین العابدین ؑ کے حضور پڑھ کر اس کتاب کو سنایا اور اس وقت آپ ؑ کے پاس صحابی رسول ابو طفیل عامر بن واثلہ کنعانی بھی بیٹھے تھے جناب علی زین العابدین ؑ نے فرمایا یہ ہماری صحیح احادیث ہیں ۔

42) شیخ احمد آل طعان القطیفی (1315 ھ) لکھتے ہیں :
« ففي كتاب سليم بن قيس الهلالي المعدود من الأصول
المعتمدة، كما صرح به المحققون المحدثون والمجتهدون »
سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب میں جس کا شمار معتبر اصولوں میں کیا گیا ہے جیسا کہ محقیقن اور مجتہدین نے صراحت کی ہے ۔

43) سید شرف الدین موسوی (1377 ھ) لکھتے ہیں :
« ومنهم سليم بن قيس الهلالي صاحب علي ، روى عنه وعن سلمان الفارسي، له كتاب في الإمامة ذكره الإمام محمد بن إبراهيم النعماني في (الغيبة)، فقال: وليس بين جميع الشي/////عة ممن حمل العلم ورواه عن الأئمة خلاف في أن كتاب سليم بن قيس الهلالي أصل من كتب الأصول التي رواها أهل العلم »
سلیم بن قیس امام علی ع کے صحابی ہیں ، انہوں نے سلیمان فارسی ع سے روایت کی ہے ان کی ایک کتاب ہے جس کا ذکر شیخ نعمانی رح نے کیا کہ ہماری جماعت امامیہ میں اس بات پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ کتاب سلیم ایک اصول ہے جو بڑے اصولوں میں سے ہے جسے راویوں نے آئمہ سے روایت کیا ہے ۔

44) شیخ علی حسن البلادی البحرانی (1340 ھ) لکھتے ہیں :
« ويكفي ما قاله صادق أهل البيت ﷺ الامام جعفر بن محمد أنه من لم يكن عنده من شيع//تنا ومحبينا كتاب سليم بن قيس الهلالي فليس عنده من أمرنا شيء، ولا يعلم من اسبابنا شيئاً، وهو ابجد الشي//عة ، ومن اسرار آل محمد، وغيرها من هذه الكلمات »
یہی کافی ہے جو صادق آل محمد ص، امام جعفر بن محمد نے فرمایا کہ جس کے پاس ہمارے پیروکاروں اور ہمارے چاہنے والوں میں سے سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب جس کے پاس نہیں ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ اور وہ ہمارے معملات اور اسباب میں سے کچھ نہیں جانتا، یہ کتاب آل محمد ص کے رازوں میں سے ایک راز ہے ۔

45) ابن الندیم لکھتے ہیں :
« وأول كتاب ظهر للشي//عة كتاب سليم بن قيس الهلالي ، رواه ابان بن ابی عیاش »
امامیہ کی پہلی کتاب جو منظر عام پر آئی وہ کتاب سلیم بن قیس ہلالی ہے ، ابان نے اسے روایت کیا ۔

46) علامہ یوسف حسین لکھنوی لکھتے ہیں :
کتاب سلیم بن قیس ہلالی ملت حق کی وہ پہلی کتاب ہے جو اس وقت ضبط تحریر میں آئی جب اسلام کا قافلہ اپنے پہلے ادوار سے گزر رہا تھا اور ابھی وہ پاک طینت اور پاک دل ہستیاں بقید حیات تھیں جو درسگاہ نبوت میں عمریں گذار کر ان کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوتے رہے آپ کے ارشادات عالیہ کو خود سنا یاد رکھا اور کسی امین کے حوالہ کر کے اس دنیا کو الوداع کہا۔

47) ابو منصور احمد الطبرسی اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں :
کتاب کو پڑھنے والے متوجہ رہیں کہ جو روایات ذکر ہوئی ہیں ، اختصار کی خاطر اور اختلاف و ضعیف نہ ہونے کے سبب ان کے اسناد سے صرف نظر کیا گیا ہے ۔
(اس کا مطلب انہوں نے اپنی کتاب میں محض وہی روایات نقل کیں جو ان کے نزدیک صحیح السند ہیں ).
پھر کتاب سلیم سے ایک روایت نقل کرتے ہیں ۔

48) سید جعفر مرتضیٰ عاملی (1441 ھ) لکھتے ہیں :
« نقول: کتاب سلیم معتمد »
میں کہتا ہوں کہ کتاب سلیم معتبر کتاب ہے ۔

49) قاضی بدر الدین سبکی (769 ھ) کی رائے کو آقائے بزرگ طھرانی نقل کرتے ہیں :
« إن أول كتاب صنف للشي///عة هو كتاب سليم بن قيس الهلالي »
پہلی کتاب جو امامیہ کے لئے لکھی گئی وہ سلیم بن قیس ہلالی کی کتاب ہے۔

50) شیخ عبد النبی کاظمی :
الشيخ عبد النبي الكاظمي في تكملة الرجال : روي عن الصادق (عليه السلام)، أنه قال: ” من لم يكن عنده من شي///عتنا ومحبينا كتاب سليم بن قيس الهلالي، فليس عنده من أمرنا شئ، ولا يعلم من أسبابنا شيئا، وهو أبجد الشي///عة، وسر من اسرار آل محمد (عليهم السلام)۔










































شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنی اعتقادی کتاب کے “باب الاعتقاد فی الحدیثین المختلفین” میں کتاب “سلیم بن قیس ہلالی” سے روایات نقل کی ہیں۔
ویسے تو کتاب سلیم بن قیس ہلالی تین مختلف طرق سے آئی ہے لیکن شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے ابان بن ابی عیاش والے طرق سے روایات نقل کی ہیں
قال ابن ابان بن ابی عیاش
عن سلیم بن قیس ہلالی



تین آئمہ کے اصحاب ( اصحاب امیر المومنین سلیم بن قیس الھلالی۔فضل بن شاذان اصحاب امام رضا ۔حسین بن سعید الاھوزی اصحاب امام رضا اور امام جواد علیہم السلام )
سے یہ روایت نقل ہوئی جس میں بارہ آئمہ کی امامت کے قوی دلیل انکی عصمت پر دلیل اور مسئلہ توسل کے قوی دلیل ایک ہی حدیث میں موجود ہے۔
امام رضا علیہ السلام کے صحابی فضل بن شاذان نے اپنی دو اسناد سے اس روایت کو نقل کیا ایک سند امام جعفر صادق علیہ السلام دوسری سند مولا علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے نقل کی
(کتاب الزھد )جن کے لکھنے والے حسین بن سعید الاھوازی امام رضا اور امام جواد علیہم السلام کے اصحاب میں سے تھے انہوں نے بھی کتاب سلیم سے اس روایت کو نقل کر کے یہ بات بھی ثابت کی کہ یہ کتاب آئمہ کے اصحاب کے نزدیک بھی کتنی معتبر تھی الحمد للہ۔
اسی روایت کو شیخ صدوق رح نے صحیح سند کیساتھ امام باقر علیہ سے نقل کیا ہے جس میں سلیم و ابان موجود نہیں۔
کتاب سلیم بن قیس الھلالی کی کتاب میں بھی اسی حدیث کا موجود ہونا اور دوسرے طرق سے بھی اسی حدیث کا ہم تک پہنچنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ کتاب سلیم میں جو لچھ لکھا ہے وہ حق و سچ ہے الحمد للہ۔









کُلینی اور صدوق اپنے ما بعد کے رجالیّین کی بنسبت ” رجال کے احوال” پر زیادہ معرفت رکھتے ہیں ( علامہ مجلسی )
سند
“عن ابان عن سلیم بن قیس “
علامہ مجلسی اس سند پر تحکیم میں فرماتے ہیں :
الحدیث الاول : حسن علی الظاھر بل صحیح اذ کتابُ سلیم مقبول عند القدماء اعتمد علیہ الکلینی و الصدوق و غیرھما و ھم اعرف باحوال الرجال ممن تاخر عنھم
پہلی حدیث : بنا بر ظاہر ” حسن ” ہے بلکہ صحیح ہے کیونکہ کتابِ سلیم قدماء کے ہاں مقبول ہے اور اس پر کلینی ، صدوق وغیرھما نے اعتماد کیا ہے اور وہ اپنے متاخرین سے زیادہ رجال کی احوال پر معرفت رکھنے والے ہیں۔
تبصرہ از عبدالزھراء : علامہ کلینی ہمارے اصول ہیں اور شیخ صدوق ہمارے فروع ۔

سیلم بن قیس کی کتاب پر مکمل تحقیق
[ 42 ] ـ سلیم بن قیس ہلالی
شیخ نجاشی نے سلف صالح میں طبقہ اولیٰ میں انکو یوں ذکر کیا ہے:
4 سليم بن قيس الهلالي
له، كتاب يكنى أبا صادق أخبرني علي بن أحمد القمي قال: حدثنا محمد بن الحسن بن الوليد قال: حدثنا محمد بن أبي القاسم ماجيلويه، عن محمد بن علي الصيرفي، عن حماد بن عيسى وعثمان بن عيسى، قال حماد بن عيسى: وحدثنا إبراهيم بن عمر اليماني عن سليم بن قيس بالكتاب.
سلیم بن قیس ہلالی
ان کی ایک کتاب ہے، ان کی کنیت ابو صادق ہے۔ مجھے علی بن احمد قمی نے خبر دی جو کہتے ہیں ہم سے محمد بن حسن بن ولید نے بیان کیا جو کہتے ہیں ہم سے بیان کیا محمد بن ابی القاسم ماجیلویہ نے جنہوں نے محمد بن علی صیرفی سے جنہوں نے حماد بن عیسی عثمان بن عیسی سے روایت کی، حماد بن عیسی کہتے ہیں: اور ہم سے ابراہیم بن عمر یمانی نے بیان کیا جنہوں نے سلیم بن قیس سے کتاب روایت کی ہے۔ (رجال نجاشی، رقم 4)
شیخ طوسی نے اپنی فہرست میں سلیم بن قیس کا ذکر کرکے ان کی کتاب تک اپنی سند بیان کی ہے اور اپنی رجال میں ان کو امام علی ع، امام حسن ع، امام حسین ع، امام سجاد ع اور امام باقر ع کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ شیخ برقی نے ان کو امام علی ع کے اولیاء میں شمار کیا ہے (رجال برقی، ص 4) اور پھر ان کو امام حسن ع، امام حسین ع، امام سجاد ع اور امام باقر ع کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔
شیخ کشی:
167 حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْبَرَّانِيُّ، قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ، عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ، عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، قَالَ: هَذَا نُسْخَةُ كِتَابِ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ الْهِلَالِيِّ، دَفَعَهُ إِلَى أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ وَقَرَأَهُ، وَزَعَمَ أَبَانٌ أَنَّهُ قَرَأَهُ، عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (ع) قَالَ صَدَقَ سُلَيْمٌ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ هَذَا حَدِيثٌ نَعْرِفُهُ.
مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ ابْنِ أُذَيْنَةَ، عَنْ أَبَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ، قَالَ قُلْتُ: لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) إِنِّي سَمِعْتُ مِنْ سَلْمَانَ وَ مِنْ مِقْدَادَ وَمِنْ أَبِي ذَرٍّ أَشْيَاءَ فِي تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ وَمِنَ الرِّوَايَةِ عَنِ النَّبِيِّ (ص) وَ سَمِعْتُ مِنْكَ بِصِدْقِ مَا سَمِعْتُ مِنْهُمْ، وَرَأَيْتُ فِي أَيْدِي النَّاسِ أَشْيَاءَ كَثِيرَةً مِنْ تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ وَمِنَ الْأَحَادِيثِ عَنْ نَبِيِّ اللَّهِ (ع) أَنْتُمْ تُخَالِفُونَهُمْ، وَذَكَرَ الْحَدِيثَ بِطُولِهِ، قَالَ أَبَانٌ: فَقُدِّرَ لِي بَعْدَ مَوْتِ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ (ع) إِنِّي حَجَجْتُ فَلَقِيتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ (ع) فَحَدَّثْتُ بِهَذَا الْحَدِيثِ كُلَّهُ لَمْ أحط [أُخْطِ] مِنْهُ حَرْفاً فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ سُلَيْمٌ قَدْ أَتَى أَبِي بَعْدَ قَتْلِ جَدِّيَ الْحُسَيْنِ (ع) وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ فَحَدَّثَهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ بِعَيْنِهِ، فَقَالَ لَهُ أَبِي صَدَقْتَ قَدْ حَدَّثَنِي أَبِي وَ عَمِّي الْحَسَنُ (ع) بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ (ع) فَقَالا لَكَ صَدَقْتَ قَدْ حَدَّثَكَ بِذَلِكَ وَنَحْنُ شُهُودٌ ثُمَّ حَدَّثَاهُ أَنَّهُمَا سَمِعَا ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص، ثُمَّ ذَكَرَ الْحَدِيثَ بِتَمَامِهِ.
مجھ سے بیان کیا محمد بن حسن برانی نے، انہوں نے کہا ہم سے حس بن علی بن کیسان نے بیان کیا جنہوں نے اسحاق بن ابراہیم بن عمر یمانی سے روایت کی، انہوں نے ابن اذینہ سے روایت کی جنہوں نے ابان بن ابی عیاش سے روایت کی، عمر بن اذینہ نے کہا: یہ سلیم بن قیس عامری، ہلالی کی کتاب کا نسخہ ہے، اس نے یہ ابان بن ابی عیاش کو دے دیا تھا جس نے اس کو پڑھا، اور ابان نے دعویٰ کیا کہ اس نے یہ امام علی بن حسین ع کو پڑھ کر سنایا ہے تو امام ع نے فرمایا تھا: سلیم نے سچ کہا، اللہ اس پر رحم کرے، اس حدیث کو ہم جانتے ہیں۔
محمد بن حسن نے کہا ہم سے بیان کیا حسن بن علی بن کیسان نے جنہوں نے اسحاق بن ابراہیم سے، انہوں نے ابن اذینہ سے روایت کی جنہوں نے ابان بن ابی عیاش سے اور انہوں نے سلیم بن قیس ہلالی سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے امیر المؤمنین ع سے عرض کیا: میں نے سلمان، مقداد اور ابو ذر سے تفسیرِ قرآن اور حدیث نبی ص کی کچھ باتیں سنی ہیں، اور آپ سے میں نے ان باتوں کی تصدیق سنی ہے جو ان سے سنی تھیں، اور میں نے لوگوں کے ہاتھوں میں تفسیر قرآن اور نبی ص کی احادیث دیکھی ہیں جس کے آپ مخالف ہیں، انہوں نے طویل حیث ذکر کی، ابان نے کہا: پس میرے مقدر میں یہ تھا کہ میں نے حج کیا اور امام ابو جعفر محمد بن علی ع سے ملا، میں نے انکو یہ حدیث پوری بیان کی بغیر ایک حرف بھی چھوڑے، تو ان کی آنکھیں بھر آئیں، پھر انہوں نے فرمایا: سلیم نے سچ کہا، میرے جد امام حسین ع کے قتل کے بعد میرے والد ع کے پاس وہ آیا تھا جب میں ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو اس نے ان کو یہ حدیث بالکل ایسے ہی بیان کی تھی اور میرے والد نے کہا تھا تم نے سچ بولا، میرے والد اور امام حسن ع نے مجھے یہ حدیث امیر المؤمنین ع سے بیان کی تھی تو ان دونوں نے کہا آپ سے کہا تھا تم نے سچ بولا، انہوں نے تم سے یہ بیان کیا تھا اور ہم گواہ ہیں، پھر ان دونوں نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے یہ رسول اللہ ص سے سنا ہے، پھر انہوں نے تمام حدیث کو بیان کیا۔ (رجال کشی، رقم 167، دونوں سندیں ضعیف ہیں)
ابن غضائری:
[ 55 ] ـ 1 ـ سُلَيْمُ بنُ قَيْس، الهِلاليّ، العامِريّ. روى عن أميرالمُؤْمِنين، والحَسَنِ، والحُسَيْنِ، وعليِّ بن الحُسَيْن عليهم السلام. ويُنْسَبُ إليه هذا الكتابُ المَشْهُورُ. وكانَ أصحابُنا يقُولُون: إِنّ سُلَيْما لا يُعْرَفُ، ولا ذُكِرَ في خَبَرٍ. وقد وجدتُ ذِكْرَهُ في مواضعَ من غير جِهَةِ كتابِهِ، ولا من روايةِ أَبان ابن أبي عيّاش عنهُ. وقد ذَكَرَ لهُ ابنُ عُقْدة في «رجال أمير المؤمنين عليه السلام» أحاديثَ عنهُ. والكتابُ موضُوعٌ، لا مِرْيَةَ فيهِ، وعلى ذلك علاماتٌ فيهِ تَدُلُّ على ما ذكرناهُ. منها: ما ذَكَرَ أَنَّ مُحَمَّدَ بنَ أبي بَكْرٍ وَعَظَ أباهُ عندَ مَوْتِهِ. ومنها: أَنَّ الأئمّةَ ثلاثةَ عَشَر. وغيرُ ذلك. وأسانيدُ هذا الكتابِ تختلفُ: تارةً بِرواية عُمَر بن أُذَيْنة، عن إبْراهيم بن عُمَر الصَنْعانيّ، عن أبان بن أبي عيّاش، عن سُلَيْم. وتارةً يُرْوى عن عُمَر، عن أبانٍ، بلا واسِطةٍ.
سلیم بن قیس، ہلالی، عامری۔ اس نے امیر المؤمنین ع سے روایت کی، اور حسن و حسین اور علی بن حسین علیہم السلام سے بھی روایت کی ہے۔ اس کی طرف مشہور کتاب منسوب ہے۔ اور ہمارے اصحاب کہتے تھے: سلیم انجان ہے، اور نہ کسی خبر میں اس کا ذکر ہے۔ مگر میں نے اس کا ذکر اس کی کتاب کے علاوہ دیگر جگہوں پر اور ابان بن ابی عیاش کی اس سے روایت کرنے کے علاوہ بھی پایا ہے۔ اور ابن عقدہ نے ان کے متعلق “رجال امیر المؤمنین ع” میں ان سے احادیث ذکر کی ہیں۔ اور یہ کتاب (سلیم بن قیس) گھڑی ہوئی ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔ اور اس میں علامات ہیں جو اس پر دلیل ہیں جو ہم نے ذکر کیا ہے۔ ان علامات میں سے وہ ہے جو ابان نے ذکر کیا ہے کہ محمد بن ابی بکر نے اپنے والد کو اس کی موت کے وقت نصیحت کی۔ اور اس میں ہے: کہ ائمہ تیرہ ہیں۔ اور اس کے علاوہ اس کتاب کی اسانید مختلف ہیں۔ کبھی عمر بن اذینہ کی روایت سے، جس نے ابراہیم بن عمر صنعانی سے جس نے ابان بن ابی عیاش سے جس نے سلیم سے روایت کی ہے۔ اور کبھی وہ عمر سے مروی ہے جس نے ابان سے بلا واسطہ روایت کی۔ (رجال ابن غضائری، رقم 55)
علامہ حلی:
وقال السيد علي بن احمد العقيقي: كان سليم بن قيس من اصحاب امير المؤمنين (عليه السلام) طلبه الحجاج ليقتله، فهرب وآوى الى ابان بن ابي عياش، فلما حضرته الوفاة قال لابان: ان لك علي حقا وقد حضرني الموت يابن اخي انه كان من الامر بعد رسول الله (صلى الله عليه وآله) كيت وكيت، واعطاه كتابا، فلم يرو عن سليم بن قيس احد من الناس سوى ابان بن ابي عياش، وذكر ابان في حديثه، قال: كان شيخا متعبدا له نور يعلوه.
سید علی بن احمد عقیقی کہتے ہیں: سلیم بن قیس اصحاب امیر المؤمنین ع میں سے تھے، حجاج نے ان کو طلب کیا تاکہ ان کو قتل کر سکے، تو وہ فرار ہوگئے اور ابان بن ابی عیاش کے پاس جاکر پناہ لی۔ جب ان کی وفات ہونے والی تھی تو انہوں نے ابان سے کہا: مجھ پر تمہارا ایک حق ہے، اور مجھے موت کا وقت آگیا ہے، اے بھتیجے، رسول اللہ ص کے بعد معاملہ یوں اور یوں تھا، اور سلیم نے ابان کو ایک کتاب دی، تو سلیم بن قیس سے یہ کتاب لوگوں میں سے کسی نے روایت نہیں کی ابان کے علاوہ۔ اور ابان نے اپنی حدیث میں ذکر کرکے کہا: سلیم ایک عبادتگزار بزرگ تھے اور انکے سے نور اٹھتا تھا۔ (خلاصہ الاقوال، ص 162)
شیخ صدوق نے ایک طویل حدیث سلیم بن قیس ہلالی سے نقل کی ہے جس کا آخری حصہ ہے:
… قال أبان بن أبي عياش: فحدثت علي بن الحسين بهذا كلّه عن سليم بن قيس الهلالي، فقال: «صدق، وقد جاء جابر بن عبد الله الأنصاري إلى ابني محمد وهو يختلف إلى كتّاب، فقبّله واقرأه السلام من رسول الله».
قال أبان بن أبي عياش: فحججت بعد موت علي بن الحسين، فلقيت أبا جعفر محمد بن علي بن الحسين فحدّثته بهذا الحديث كلّه عن سليم، فاغرورقت عيناه وقال: «صدق سليم، وقد أتى أبي بعد قتل جدي الحسين وأنا عنده، فحدّثه بهذا الحديث بعينه، فقال له أبي : صدقت والله ـ يا سليم ـ قد حدثني بهذا الحديث أبي عن أمير المؤمنين»
۔۔۔ ابان بن ابی عیاش نے کہا: میں نے یہ پوری حدیث امام علی بن حسین ع کو بیان کی سلیم بن قیس ہلالی سے روایت کرکے تو امام ع نے فرمایا: اس نے سچ بولا، جابر بن عبد اللہ انصاری میرے بیٹے محمد (باقر ع) کے پاس آئے تھے جب وہ لکھاریوں کے پاس آتے جاتے تھے، تو جابر نے انکا بوسہ لیا اور رسول اللہ ص سے ان کو سلام پہنچانا۔
ابان بن ابی عیاش نے کہا: تو میں امام علی بن حسین ع کی وفات کے بعد حج پر گیا اور امام ابو جعفر محمد بن علی بن حسین (باقر ع) سے ملا اور ان کو یہ پوری حدیث سلیم سے روایت کرکے بیان کی۔ ان کی آنکھیں اشک سے نم ہوگئیں اور انہوں نے فرمایا: سلیم نے سچ کہا، اور وہ میرے والد کے پاس آئے تھے میرے دادا امام حسین ع کے قتل کے بعد، اس وقت میں بھی ان کے پاس تھا، تو انہوں نے یہ حدیث بالکل اس ہی طرح ان کو بیان کی تھی تو میرے والد نے ان سے فرمایا تھا: تم نے سچ کہا، خدا کی قسم، اے سلیم! میرے والد مجھے یہ حدیث امیر المؤمنین ع سے بیان کر چکے ہیں۔ (اعتقادات الامامیہ، ص 123)
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ سلیم بن قیس بذات خود ثقہ اور جلیل القدر ہیں، شیخ نجاشی کا ا ن کو سلف صالح میں شمار کرنے اور شیخ برقی کا انکو امام علی ع کے اولیاء میں شمار کرنے کے سبب، ساتھ ہی شیخ نعمانی کا ان کی کتاب کو معتبر ماننے سے جیسا کہ ابان بن ابی عیاش کے ضمن میں ہم بیان کر چکے ہیں۔ ان کی کتاب جو کتاب سلیم بن قیس کے نام سے معروف ہے پر ہماری مفصل بحث ضعفاء میں ابان بن ابی عیاش کے ضمن میں دیکھیئے۔ اگر کتاب سلیم بن قیس کا بغور جائزہ لیں تو دقیق جائزے سے اہم نقاط سامنے آتے ہیں:
سلیم تک اور بھی کئی روایات ہمارے متقدمین مثلا شیخ کلینی و صدوق نے بسند صحیح نقل کی ہیں۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ جو بھی روایات سلیم سے نقل کی جاتی تھیں وہ سلیم کی کتاب سے ہی لی جاتی تھیں کیونکہ احادیث شیعہ اس طرح ہی ہم تک موصول ہوئی ہیں۔ پس واضح ہوا کہ جو روایات صحیح اسانید سے شیخ کلینی اور شیخ صدوق نے نقل کی ہیں وہ سلیم کی کتاب سے معتبراً ہی لی گئی ہیں، یہ بحث فہرستی میں آجاتا ہے جس کا ذکر ہم اپنی کتاب میں پہلے بھی کر چکے ہیں۔
کتب رجال میں دیکھیں تو شیخ ابن غضائری کہتے ہیں کہ سلیم کی کتاب کی مختلف سندیں ہیں، کسی میں ابراہیم بن عمر نے سلیم سے بواسطہ ابان روایت کی ہے اور کبھی بلا واسطہ۔ شیخ نجاشی کی کتاب میں وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن عمر نے سلیم سے روایت کی ہے، اور جب وہ کتاب کی سند دیتے ہیں تو اس میں بھی ابراہیم بن عمر نے سلیم سے روایت کی ہے۔ بعض اسانید میں دیکھیں تو ابان بن تغلب نے بھی سلیم سے کتاب نقل کی ہے۔ جیسے سند:
حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ اَلْهِلاَلِيِّ عَنْ سَلْمَانَ اَلْفَارِسِيِّ رَضِيَ اَللَّهِ عَنْهُ قَالَ:… (کمال الدین، ص 262، الخصال، ص 475، عیون اخبار الرضا، ج 1، ص 52، الامامہ والتبصرہ، رقم 96، کفایہ الاثر، ص 46)
اس سند کے بارے میں حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس سند میں ارسال ہے، لیکن ایسا نہیں کیونکہ ابان بن تغلب نے امام سجاد ع کی بھی صحبت پائی ہے، تو ان کا سلیم سے روایت نقل کرنا بعید نہیں کیونکہ دونوں معاصر ہیں۔ عیون اخبار الرضا میں جب یہ روایت آئی ہے تو اس میں راوی کا نام ابان بن خلف ہے، لیکن یہ تصحیف ہے اور درست نام ابان بن تغلب ہے جیسا کہ قرائن سے معلوم ہوا ہے کہ یہ سلیم سے روایت کرتے ہیں۔
ابراہیم بن عمر کے بارے میں شیخ نجاشی کہتے ہیں کہ وہ سلیم سے نقل کرتے ہیں، ابن غضائری نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔ ہم طبقات دیکھیں تو سلیم نے امام باقر ع کی صحبت پائی ہے، اور شیخ نجاشی و ابن غضائری کا اتفاق ہے کہ ابراہیم بن عمر بھی امام باقر ع کے صحابی تھے۔ جہاں تک سند کی بات ہے، تو نجاشی کی سند گو کہ ضعیف ہے، دوسری سند جو حماد بن عیسی سے نقل ہوئی ہے، وہی سند شیخ کلینی و صدوق نے اپنے واسطوں سے صحیح اسانید سے نقل کی ہیں، جیسے:
21- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلالِيِّ قَالَ خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام)… (الکافی، ج 8، ص 58، رقم 21)
541- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلالِيِّ قَالَ سَمِعْتُ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ… (الکافی، ج 8، ص 343، رقم 541)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ… (بصائر الدرجات، ص 83، کمال الدین، ص 240، الکافی، ج 1، ص 191)
پس ابان بن ابی عیاش کی سند سے تو کتاب ضعیف ہے، لیکن یہی کتاب مختلف سندوں سے آئی ہے جیسا کہ ابن غضائری نے کہا ہے، شیخ نجاشی نے بھی کہا ہے کہ ابراہیم بن عمر ان سے روایت کرتے ہیں، اور کلینی و صدوق نے اسانید بھی بتاتی ہیں کہ مختلف اسانید سے یہ کتاب آئی ہے۔ پس دلائل سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کلینی و صدوق کے پاس سلیم کی کتاب تک صحیح اسناد موجود تھیں، اس سے یہ کتاب صحیح اسانید سے ثابت ہوجاتی ہے۔
جہاں تک سوال آتا ہے کہ کیا موجودہ نسخہ وہی ہے جو سلیم نے لکھا تھا یا نہیں، اور کہ اگر یہ شیخ کلینی وغیرہ تک موصول ہوئی، تو ہمیں کیسے معلوم کہ ہم تک بھی معتبراً موصول ہوئی ہے؟ ہم کہتے ہیں، حامداً و مصلیاً، کہ یہ کتاب متعدد اسانید سے مروی ہے اور یہ اس کی صحت اور بنیادی مصدر ہونے کے لیئے کافی ہے، اور موجودہ کتاب کی احادیث کے مؤیدات بھی موجود ہیں دیگر اصول و کتب معتبرہ ہیں جو اس کے متن کو تقویت دیتے ہیں۔ سلیم بن قیس کا ایک تحقیقی نسخہ بھی شائع ہوا ہے جس میں ہر حدیث کی تخریج موجود ہے، کہ یہ کس دیگر قدیم کتاب میں موجود ہے مصادر اولیہ میں سے، یہ سب ہمیں اس کتاب کے متن کے سالم ہونے کا وثوق اور اطمئنان دیتا ہے
التماس دعا:سید اسد عباس نقوی
.
اگر موجودہ نسخہ صحیح نہ بھی ہو سیدہ کی شہادت والا واقعہ صحیح نسخے سے ثابت ہے
