کیا امام علی علیہ السلام نے فیصلہ میں غلطی کی؟

الکافی میں ایک روایت اس عنوان سے وارد ہوئی کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے دو عادل کی گواہی پر ایک شخص جس پر چوری کا الزام تھا ، شہادات کی موجودگی میں اس پر حد جاری کی اور اسکے ہاتھ کاٹے لیکن بالآخر دو اور مزید اشخاص آئے اور انہوں نے کہاکہ یہ چور نہیں تھابلکہ کوئی اور شخص تھاچنانچہ جن لوگوں نے غلط گواہی دی تھی تو ان کو دیت دینے کا کہا۔
اس سے ناصبیوں نے یہ ثابت کرنا چاہا کہ چونکہ امیر المؤمنین ع نے ایک غلط شخص پر حد جاری کی تو یہ ان کی غلطی تھی اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہےکہ امیرالمؤمنین علیہ السلام معصوم نہیں تھے، تو آئیے ان کے اس شبہ کا جواب عرض کرتے ہیں۔
فقہ اسلامی میں ناظرین مسئلہ یہ ہے کہ عمومی حالات میں فقط ظاہر پر ہی حد اور دیگر سزاؤں کا اجرا کیا جاتا ہے ، اور جو امر واقعی ہوتا ہے اس پر حکم جاری نہیں ہوتا۔ کیونکہ اگر امر واقعی پر حکم جاری ہونے لگیں تو ممکن ہے کہ وہ سنت کا روپ اختیار ہوجائے اور سوء استفادہ ہو۔ اور یوں پورا نظام عدالت درھم برھم ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس امر کی تفصیل مزید آئے گی۔
چنانچہ رسول اکرم ﷺ کی روایت کے مطابق :
♨ حضرت ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں رسولﷺ نے فرمایا تم میرے پاس مقدمات لے کر آتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے موقف کو دوسری کی بہ نسبت زیادہ دلائل کے ساتھ پیش کرے اور اس سماعت کے اعتبار سے میں بالفرض اس کے حق میں فیصلہ کردوں سو جس شخص کو میں اس کے بھائی کا حق دے دوں وہ اسکو نہ لے کیونکہ میں اسکو آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں۔
حوالہ : [صحیح مسلم – روایت رقم ٤٤٧٣]
: [ شرح صحیح مسلم – جلد ٥ – ص ٨٦ – رقم روایت ٤٣٥٩ ]
اسکے علاوہ یہ روایت اتنی مشہور ہے کہ یہ صحاح ستہ میں تمام کتابوں میں منقول ہے
١) [ صحیح بخاری – رقم روایت ٢٦٨٠ ]
٢) [ سنن ابن ماجہ – رقم روایت ٢٣١٧ ]
٣) [سنن نسائی – رقم روایت ٥٤٠١]
٤) [سنن ابی داؤد – رقم روایت ٣٥٨٣]
٥) [سنن ترمذی – رقم روایت ١٣٣٩]
٦) [مسند احمد – رقم روایت ٢٥٦٧٠]
٧) [موطا مالک – رقم روایت ٢٦٦٢]
تبصرہ: ناظرین یہ دیکھیں کہ ادھر بھی ظاہر پر حکم دیا جارہا ہے، حقیقت واقعہ پر نہیں، ہم نے جان بوجھ کر اتنی ساری روایات کے حوالوں کے درمیان سے شرح مسلم از مولانا سعیدی کا انتخاب کیا، کیونکہ ان کی شرح اردو دان طبقہ کے لئے پڑھنا آسان ہے،
علامہ سعیدی نووی کی شرح سے نقل کرتے ہیں :
♨ آپ [رسول اللہ ﷺ ] لوگوں کے درمیان باعتبار ظاہر کے فیصلہ کرتے ہیں اور حقیقت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہوتا ہے ، اس لئے آپ گواہوں اور قسم کی بنا پر فیصلہ کرتے ہیں جب کہ یہ ممکن ہے کہ واقعہ میں حقیقت ظاہر کے خلاف ہو لیکن آپ کو ظاہر کے مطابق فیصلہ کرنے کا مکلف کیا گیا ہے۔
حوالہ: [ شرح صحیح مسلم از رسول سعیدی – جلد ٥ – ص ٨٧ ]
آگلے صفحہ پر فرماتے ہیں :
♨ اور اس حدیث کا مطلب یہ ہے آپ بغیر اپنے اجتہاد کے محض شہادت یا قسم کی بنا پر جو فیصلہ کریں اور اس ظاھر شہادت کی وجہ سے بالفرض باطن کے خلاف فیصلہ کردیں اس فیصلہ کو غلط اور خطاء نہیں کہا جائے گا بلکہ آپ کو جس بنیاد پر فیصلہ کرنے کا مکلف کیا گیا ہے وہ شہادت یا قسم ہے اور اس لحاظ سے یہ فیصلہ صحیح ہے اور اگر گواہوں نے جھوٹی گواہی دی تو یہ ان کا گناہ ہے، فیصلے میں کوئی قصور نہیں ہے۔
حوالہ : [ شرح صحیح مسلم از رسول سعیدی – جلد ٥ – ص ٨٨ ]
کمنٹ: ناظرین اب تو فیصلہ واضح ہوجانا چاہیئے کہ یہ جس چیز کو موصوف خطائے امیر المؤمنین علیہ السلام کہہ رہے ہیں یہ تو ان کے مبنیٰ کے مطابق بھی خطا نہیں بنتی اور نہ ہی ہمارے مبنی کے مطابق کیونکہ عدالت اور قضاوت میں فیصلہ ظاہر پر ہوتا ہے، بلکہ اگر کوئی قاضی (جو فیصلہ کرے) اسکو حقیقت کا علم بھی ہو تو جب بھی اس کو ظاہر کا ہی مکلف بنایا ہے۔ اس سلسلہ میں ہم اہلسنت کے بعض علماء جو نمائندہ مذہب فقہی ہیں انکا فیصلہ نقل کئے دیتے ہیں
فقہ حنفی کا مسئلہ پیش خدمت ہے علامہ علاءالدین حنفی علامہ ابو السعود کا قول نقل کرتے ہیں :
♨ مفتی بہ مسئلہ یہ ہے جو فقہ حنفی میں صحیح ہے)کہ قاضی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے علم (جو اس کو امر واقعہ کا ہو) کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔
حوالہ : [ قرة عيون الاخیار – جلد ١ – ص ١٣٣ کتاب الشہادات ]
فقہ حنبلی کی مشہور کتاب میں لکھا ہے :
♨ حاکم کیلئے ضروری ہے فیصلہ کرتے ہوئے اپنے علم کا استعمال نہ کرے (بلکہ ظاہر کو مدنظر رکھے)
حوالہ : [ الخرقی – ص ١٥٤ – طبع دار الصحابتہ ]
فقہ مالکی کی کتاب میں لکھا ہے :
♨ حاکم کے لئے ضروری ہے فیصلہ کرتے ہوئے اپنے علم کا استعمال نہ کرے کسی بھی قضاوت کے معاملہ میں (بلکہ ظاہر کو مدنظر رکھے)
حوالہ : [ التلقین فی الفقہ المالکی – جلد ٢ – ص ٢٠٩ ]
👈 اب تو واضح طور پر ثابت ہوا کہ ادھر اصل خطاء کہی نہیں جاسکتی اور نہ ہی اپنے علم کو استعمال کیا جاسکتا ہے، جو امیر المؤمنین علیہ السلام نے کیا وہ بعینہ صحیح تھا۔